پاکستان کی سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے اگر پارلیمنٹ چھ ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع اور ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون سازی نہیں کرتی صدر مملکت نئے آرمی چیف کی تعیناتی کریں گے۔
پیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جب کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دو صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے، پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے۔‘
مزید پڑھیں
-
مدت ملازمت: قانون سازی کیسے ہوگی؟Node ID: 445576
-
’حکومت نہیں چاہتی کہ قانون سازی ہو‘Node ID: 445726
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’یاد رکھیں کہ ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔ کیس کابنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا۔ یہ معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف بھیجا جاتا ہے۔‘
فیصلے میں لکھا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا کہ آرمی چیف کے تقرر کے عمل کو قانونی شکل دی جائے گی اور وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی تقرری کی قانون سازی کے لیے چھ ماہ مانگے ہیں۔ وفاقی حکومت آرمی چیف کی سروس سے متعلق قواعد و ضوابط طے کرے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت آرٹیکل 243 کے دائرہ کار کا تعین کرے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف نئی تقرری چھ ماہ کے لیے ہوگی اور ان کی موجودہ تقرری بھی مجوزہ قانون سازی سے مشروط ہوگی جبکہ نئی قانون سازی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت کا تعین کرے گی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے کے آخر میں اضافی نوٹ میں سنہ 1616 میں چیف جسٹس آف انگلینڈ سر ایڈورڈ کوک کے ایک فیصلے ’آپ جس قدر بھی طاقت ور کیوں نہ ہوں قانون آپ سے بالاتر ہے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ملازمت کے قواعد بنانے سے بہت سی تاریخی غلطیوں کو درست کیا جاسکتا ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں