ایسی رسم جس میں دلہے کو دلہن کے گھر چھوڑ دیا جاتا ہے
ایسی رسم جس میں دلہے کو دلہن کے گھر چھوڑ دیا جاتا ہے
منگل 24 دسمبر 2019 11:51
زاہد النسا -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان کی ثقافت کے رنگ شادی کی رسومات میں خوب دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فوٹو: پنٹرسٹ
پاکستان میں شادی کی تقاریب میں سب سے دلچسپ اور رنگارنگ مواقع مختلف رسومات کی ادائیگی ہوتے ہیں۔
متعدد لسانی وعلاقائی ثقافتوں کے مجموعے سے بننے والے ملک جس کے ہر صوبے اور علاقے کے رسوم و رواج منفرد ہیں، میں شادی کے موقع پر لوگ اپنے خاندان کی رسوم سے کھل کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اردو نیوز نے پاکستان کی مختلف ثقافتوں میں ادا کی جانے والی شادیوں کی رسمیں جاننے کے لیے پاکستان بھر میں لوگوں سے بات کی ہے جنہوں نے اپنی اپنی رسموں کی انفرادیت کے بارے میں آگاہ کیا۔
دلہا اور دلہن کے سر کی ٹکر
لاڑکانہ کے ایک سندھی خاندان سے تعلق رکھنے والی زیست شبیر جنہوں نے وہاں متعدد شادیوں میں شرکت کی نے بتایا کہ سندھ میں ’لاہوں‘ نام کی ایک بہت مشہور رسم ہوتی ہے۔
’اس میں یہ ہوتا ہے کہ دلہا اور دلہن کو ایک دوسرے کے سامنے بٹھاتے ہیں اور سب آکر دونوں کے سر کو تین تین بار ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور پھر ان کو پیسے دیتے ہیں۔‘
عام طور پر دلہا دلہن کو سٹیج پر رکھے صوفوں پر بٹھاتے ہیں، لیکن اس رسم کے لیے سٹیج پر رلی بچھا کر دونوں کو اس رلی پر بٹھاتے ہیں۔
یہ رسم مسلمان اور ہندو دونوں سندھی کرتے ہیں۔
زیست شبیر، جنہوں نے سندھی ثقافت کا گہرا مطالعہ کیا ہے، کا کہنا ہے، ’یہ ساری رسمیں برِصغیر میں پہلے جو ہندو رہتے تھے ان سے آئی ہیں۔ ہماری تہذیب میں اس کی کوئی اسلامی یا مذہبی اہمیت نہیں ہے۔ ان کا تعلق ثقافت اور روایات سے ہے۔‘
زیست شبیر کا ماننا ہے کہ ان رسموں کی مقبولیت یا معدومیت کا تعلق شہری اور دیہی رہن سہن سے ہے۔
’کراچی میں میزبانوں کو معلوم ہوتا ہے کہ شادی کی تقریب میں مختلف طرح کے لوگوں کو دعوت ہوتی ہے تو بہت کم سندھی یہ رسمیں کرتے ہیں کراچی میں۔ لیکن اگر آپ حیدر آباد یا اور اندر چلے جائیں تو یہ ساری رسمیں ہوتی ہیں۔‘
یوں تو ہر رسم اور روایت اپنے طور پر انوکھی ہے لیکن کچھ ثقافتوں کی رسومات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔
دلہن کے چہرے کو شادی کے دن تک چھپانا
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی فرح ناز بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے یہاں جو رسومات ہوتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ شادی والے دن دلہا اور دلہن کو ساتھ بٹھایا جاتا ہے اور خاندان کا کوئی بڑا آکر ان دونوں کا سر آپس میں تین بار ٹکراتا ہے۔
یہ رسم سندھ میں ہونے والی ’لاہوں‘ کی رسم سے ملتی جلتی ہے۔
اپنی اور اپنے خاندان میں ہونے والی شادیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرح ناز نے بتایا، ’ہمارے یہاں مایوں کی رسم یوں ہوتی ہے کہ کسی بھی کمرے کے کونے میں ایک پردا لگاتے ہیں اور دلہن کو بٹھاتے ہیں۔ مایوں میں بیٹھنے والی دلہن کے منہ کو مکمل طور پر کپڑے سے چھپا دیتے ہیں۔ پہلے کی دلہنوں میں تو پورا جسم کپڑے میں ڈھکا ہوتا تھا لیکن اب تھوڑے ہاتھ پاؤں دکھا دیتے ہیں۔‘
’جس دن سے لڑکی مایوں بیٹھتی ہے اس دن سے لے کر اس کی شادی کے دن تک اس کے منہ کا کپڑا نہیں ہٹتا۔ وہ صرف خود اپنے آپ کو دیکھتی ہے اس کے علاوہ کوئی اس کو نہیں دیکھ سکھتا۔ چونکہ آج کل شادی سے قبل بیوٹی پارلر جانے کا رجحان ہے اسی لیے لڑکی کے علاوہ اگر اسے کوئی دیکھ سکتا ہے تو وہ پارلر کی ملازمین ہوتی ہیں جو اس کو سروسز دیتی ہیں۔‘
فرح کا کہنا تھا کہ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ لڑکی اس پردہ لگے کونے سے نہیں اٹھتی تھی، سوتی بھی وہیں تھی۔ اور اگر بیت الخلا جانا ہوتا تھا تو چاکو یا کوئی نوک دار چیز ساتھ لے کر جاتی تھی۔ کیونکہ بڑے بوڑھوں کا ماننا تھا کہ بیت الخلا میں جنات اور بلائیں ہوتی ہیں جو دلہن پر حاوی ہو سکتے ہیں، اور ہاتھ میں لوہے کی چیز ہونے سے وہ ڈر جاتے ہیں۔
’لیکن اب یہ نہیں ہوتا۔ اب دلہن چاہے تو آرام کرنے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔‘
دلہے والوں کی طرف سے دلہن کے ساتھ کی جانے والے رسموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرح ناز نے بتایا، ’جو پردا لگا ہوتا ہے اس کو دلہے والے بدل دیتے ہیں جب وہ رسموں کے لیے آتے ہیں۔ وہ اس پردے کو ہٹا کر ایک دوسرا زرک برک سا پردا لگا دیتے ہیں اور پھر دلہن کے بالوں میں تیل لگاتے ہیں۔‘
بلوچوں کی پرانی رسومات کے بارے میں فرح ناز نے بتایا کہ جس زمانے میں ان کے والدین کی شادی ہوئی تھی تب ایک رسم ہوتی تھی جس کے تحت دلہا والے جب لڑکی کے پاس بارات لے کر جاتے تھے تو لڑکے کو وہاں تین دن سے ایک ہفتے تک چھوڑ آتے تھے۔
’جب تین دن سے ایک ہفتے کے دورانیے کے بعد رخصتی ہوتی تھی تو دلہن کے خاندان سے کوئی بڑی خاتون دلہن کے ساتھ اس کے شوہر کے گھر جاتی تھیں اور تب تک وہاں رہتی تھیں جب تک دلہن نئے ماحول میں گھل مل نہیں جاتی تھی۔ لیکن اب یہ رسم کوئی نہیں کرتا۔‘
کھجوروں، ناریل سے حفاظت
اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والی شمائلہ تیجانی کا کہنا ہے کہ ان کی برادری میں ایک رسم ہوتی ہے جسے ’کھوبا کھوبی‘ کہتے ہیں۔
’اس رسم میں چاولوں میں ایک سکہ ڈالتے ہیں، جس کو ڈھونڈنے کا دلہا اور دلہن کے درمیان ایک طرح سے مقابلہ ہوتا ہے۔ اس کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔‘
کیونکہ پورے برصغیر میں جادو، نظر اور بلاؤں کا ڈر پایا جاتا ہے تو اکثر رسومات ان کو نئے جوڑے سے دور رکھنے کی نیت سے بھی کی جاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک رسم کے بارے میں شمائلہ تیجانی نے بتایا، ’وہ یہ ہوتی ہے کہ سات کھجوروں کو دلہا اور دلہن کے گرد گھما کر انہیں سات اطراف پھینک دیتے ہیں تاکہ وہ ساری بلاؤں سے دور رہیں اور نئی زندگی میں اچھی طرح قدم رکھیں۔‘
انہوں نے ایک اور رسم کا ذکر کیا جو انکی شادی میں تو نہیں کی گئی تھی لیکن پہلے زمانے میں ہوتی تھی۔
’جب شادی کی تقریب کے مقام سے ہابر نکل کر لڑکا لڑکی گاڑی میں بیٹھتے ہیں تو جس رستے کا وہ رُخ کرتے ہیں وہاں گاڑی کے جانے سے پہلے ناریل پھوڑا جاتا ہے تاکہ وہ نیک خواہشات کے ساتھ اپنے سفر میں آگے بڑھیں۔‘
’نیگ‘ کا ذمہ دلہے کے سر
اسی طرح پنجاب کے مختلف علاقوں میں شادی والے دن دلہن کی سہیلیاں یا رشتہ دار دلہے کے جوتے چھپا لیتے ہیں اور پھر نیگ (تحفتاً دی گئی رقم) وصول کرنے کے بعد واپس کرتے ہیں۔
کچھ علاقوں میں دلہے کی سالیاں دلہے کو دودھ پلانے کے عوض ’نیگ‘ وصول کرتی ہیں جب کہ دلہن کے اپنے سسرال پہہنچنے پر ایک رسم ادا کی جاتی ہے جس میں دلہا دلن کے کمرے کے دروازے کے سامنے کوئی کھڑا ہو جاتا ہے اور ان کو اس وقت تک اندر نہیں جانے دیتا جب تک دلہا اس کی فرمائش پوری نہ کر دے۔
آئینے کی رسم
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پشاور کی رہائشی ربینہ شاہین نے پختونوں میں کی جانے والی رسومات میں سے ایک کے بارے میں بتایا۔
اس میں دلہا اور دلہن کو ایک ساتھ آئینے میں دیکھتے دکھایا جاتا ہے۔
’اس سے پہلے جب دلہن کے گھر بارات لے کر جایا جاتا ہے تب دلہے کو چار پائی پر بٹھایا جاتا ہے اور اسے اس پر اچھالتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے جو کپڑے پہنے ہوتے ہیں اس پر اسے وہ کپڑے پہنائے جاتے ہیں جو لڑکی والوں نے اس کے لیے بنوائے ہوتے ہیں۔‘