بل کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی وفاقی کابینہ کی جانب سے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی منظوری دینے کے بعد نیا موڑ یہ آیا ہے کہ مسلم لیگ نواز نے اس ترمیم کی غیر مشروط حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔
جبکہ حکومتی عہدیدار دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش میں ہیں۔
ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیا طریقہ درج ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آرمی ایکٹ میں کیا ترمیم ہونے جا رہی ہے؟
پاکستان کے دستور کے بارھویں حصے کا دوسرا باب پاکستان کی مسلح افواج سے متعلق ہے۔ آئین کے آرٹیکل 243، 244، اور 245 مسلح افواج کی کمانڈ تعیناتیوں اور ان کے کارہائے منصبی سے متعلق ہیں۔
آئین کی ان شقوں کی روشنی میں پاکستان کی مسلح افواج کے انتظام وانصرام چلانے کے لیے قوانین اور قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں۔ پاکستان کی بری فوج کو عرف عام میں پاک فوج کہا جاتا ہے۔ پاک فوج کی کمانڈ اورنظام چلانے کے لیے ’پاکستان آرمی ایکٹ 1952 فی الوقت نافذ العمل ہے۔‘
آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت صدر مملکت وزیراعظم کی سفارش پر آرمی چیف کی تعیناتی کرتے ہیں۔ اسی آرٹیکل کے تحت ماضی میں آرمی چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کرتے رہے ہیں۔
لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران انکشاف ہوا کہ آئین اور قانون میں دوبارہ تعیناتی، مدت ملازمت میں توسیع اور کسی بھی جنرل کی ریٹائرمنٹ کا کوئی قانون ہی موجود نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 243، پاکستان آرمی ایکٹ 1952 اور آرمی ریگولیشنز اس حوالے سے خاموش ہیں۔
سماعت کے دوران ایک موقع پرتو اٹارنی جنرل نے کہہ دیا تھا کہ جنرل کبھی ریٹائر ہی نہیں ہوتا۔ لیکن اگلے ہی دن انھوں نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفیکیشن بھی پیش کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مدت ملازمت میں توسیع، دوبارہ تعیناتی اور ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون سقم کی نشاندہی کی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اسی ایکٹ میں ترمیم کی جا رہی ہے۔
آرمی ایکٹ میں کیا ترمیم کی گئی ہے؟
وفاقی کابینہ نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دی اور تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا۔
اردو نیوز کو دستیاب آرمی ایکٹ مسودے کے مطابق اس بل کو پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020ء کا نام دیا گیا ہے۔ بل کے تحت ایکٹ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ نئے باب کو ’آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس کی تعیناتی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ترمیمی بل میں فوج کے سربراہ کی تعیناتی کی مدت 3 سال مقرر کی گئی ہے۔ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت پوری ہونے پر انہیں 3 سال تک توسیع دی جا سکے گی۔
فوج کے سربراہ کی نئی تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس میں وسیع تر قومی مفاد اور ہنگامی صورت حال کا تعین کیا جائے گا۔
بل کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی۔ ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا۔
پاک فوج، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ سے 3 سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس کو تعین کیا جائے گا۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس کی تعیناتی بھی وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔
مجوزہ بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا۔
بل کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی 3 سال کی توسیع دی جا سکے گی جبکہ کسی قانونی تنازع کی صورت میں بھی اسی قانون کا اطلاق ہوگا۔
سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حوالے سے تفصیلی فیصلہ 16 دسمبر کو جاری کیا گیا تھا۔