Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنرل قاسم سلیمانی امریکی حملے میں ہلاک

یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ نے کس قانونی اختیار کے تحت قاسم سلیمانی پر حملہ کیا۔ فوٹو: اے پی
عراق میں امریکہ کے ایک راکٹ حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی ہلاک ہو گئے ہیں۔
جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں ایران خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا بلکہ شام، عراق اور دیگر ممالک میں امریکی افواج کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
ایران کے پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ نے ملک کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر کہا ہے کہ ایران امریکہ سے اس کا بدلہ لے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق محسن ریزائی نے حملے کے بعد ٹوئٹر پر لکھا کہ ’قاسم سلیمانی  اب اپنے شہید بھائیوں کے ساتھ ہیں لیکن ہم امریکہ سے ایسا ہی بدترین بدلہ ضرور لیں گے۔‘
امریکہ کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ ’قاسم سلیمانی کو نشانہ اس لیے بنایا گیا کیونکہ وہ عراق اور پورے خطے میں امریکی سفارتکاروں پر حملہ کرنے کی منصوبی بندی میں سرگرم تھے۔‘
حملے کے کچھ گھنٹوں بعد امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے ٹوئٹر پر لکھا کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر عراق کی عوام نے سڑکوں پر نکل کر خوشی کا اظہار کیا۔
’عراقی آزادی کے لیے سڑکوں پر ڈانس کر رہے ہیں اور شکرگزار ہیں کہ جنرل سلیمانی اب نہیں رہے۔‘
پومپیو نے اس ٹویٹ کے ساتھ ایک ویڈیو بھی شئیر کی ہے جس میں متعدد افراد کو سڑک پر دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان افراد نے کچھ بینرز اور ایک جھنڈا بھی پکڑا ہوا ہے جو دیکھنے میں عراق کے جھنڈے جیسا تھا۔

رواں ہفتے بغداد میں مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔ (فوٹو:اے ایف پی)

امریکہ نے قاسم سلیمانی پر بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو مشتعل مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملہ کا الزام ایران پر لگاتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین ایران کے حامی تھے۔
تاہم قاسم سلیمانی پر حملے کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی کے ایک مشیر نے ٹرمپ کو ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کا انتباہ دیا ہے۔
ایرانی صدر کے مشیر حسام الدین نے سوشل میڈیا ایپلیکیشن ٹیلی گرام پر لکھا ہے کہ، ’ٹرمپ نے امریکہ کو خطے میں ایک بے حد خطرناک صورت حال میں کھینچ لیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے خطرات سے کھیلنے والے نتائج کا سامنے کرنے کے لیے تیار ہوں۔
صدر ٹرمپ فلوریڈا میں پام بیچ پر چھٹیوں پر ہیں لیکن اس دوران انہوں نے اپنے ٹوئٹر پر امریکی جھنڈا لگایا۔
امریکہ کی جانب سے یہ حملہ ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب صدر ٹرمپ خود مواخذے کی کارروائی اور دوسری مدت کے لیے انتخابات کی مہم میں مصروف ہیں۔
ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی مئی 2018 میں امریکہ کی ایران کے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد شروع ہوئی، جو پر سابق صدر براق ابامہ کے دور میں طے پایا تھا۔

قاسم سلیمانی پر حملہ

ایک امریکی افسر کے مطابق قاسم سلیمانی پر حملہ امریکہ فوج کے ڈرون سے کیا گیا۔  
عراق کے ایک سیکورٹی افسر کا کہنا تھا قاسم سلیمانی اپنے طیارے سے نکل کر المہندس اور دیگر سے ملنے جارہے تھے جب وہ حملہ کی زد میں آئے۔  ان کا کہنا تھا کہ طیارہ شام یا لیبنان سے آیا تھا۔
عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے دو عہدیداروں کا کہنا تھا کہ حملے میں قاسم سلیمانی کی لاش بری حالت میں ملی جبکہ المہندس کی لاش کا پتہ نہیں لگایا جا سکا۔

امریکہ نے قاسم سلیمانی پر بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک سینئر سیاستدان کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی کی لاش کی شناخت ان کہ پہنی ہوئی انگوٹھی سے کی گئی۔
معاملے کی حساسیت کے باعث دونوں عہدیداروں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بات کی۔
یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ نے کس قانونی اختیار کے تحت قاسم سلیمانی پر حملہ کیا۔ تاہم امریکی صدور کا دعویٰ ہوتا ہے کہ جب امریکی مفادات یا افواج کو خطرہ لاحق ہوں تو صدر کانگریس کی منظوری کے بغیر اقدامات لے سکتے ہیں۔
امریکی وزارتِ دفاع کے مطابق قاسم سلیمانی پر حملے کی وجہ ان کے امریکی سفارتکاروں پر حملے کی منصوبہ بندی میں سرگرم ہونا تھی۔ تاہم وزارتِ دفاع کے ہیڈکوارٹر پینٹاگون کا کہنا نے اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں دیا ہے۔
امریکی ریاست کنیکٹیکٹ سے ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر ریچرڈ بلومینتھول کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو چاہیے کہ اس اقدام پر کانگریس اور امریکا کی عوام کو مکمل وصاحت دیں۔
’ملٹری فورس کے استعمال کے موجودہ اختیارات کسی بھی طرح ممکنہ جنگ کی شروعات کی تجویز نہیں کرتے۔‘
تاہم صدر ٹرمپ کے اتحادیوں نے اس اقدام کی فوری تائید کی۔  
امریکی ریاست جنوبی کیرولینا سے سینیٹر لینڈسے گراہم نے ٹوئٹر پر ایرانی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے پیغام دیا۔

شیئر: