امتیاز احمد ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ڈبل سنچری بنانے والے پہلے وکٹ کیپر تھے، انھوں نے سنہ 1955 میں نیوزی لینڈ کے خلاف لاہور میں یہ اعزاز حاصل کیا تو ساتھ ہی وہ ڈبل سنچری کرنے والے پہلے پاکستانی بلے باز بھی بن گئے۔
سنہ 1951 میں انڈین پرائم منسٹر الیون کی طرف سے کھیلتے ہوئے انھوں نے بمبئی میں دولت مشترکہ کی ٹیم کے خلاف 300 رنز بنائے اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں کسی غیرملکی ملکی ٹیم کے خلاف ٹرپل سنچری کرنے والے برصغیر کے پہلے بیٹسمین بنے۔
سنہ 1952 میں انڈیا کے خلاف پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ کھیلا تو وہ ٹیم میں شامل تھے۔ وہ اگلے دس برس تک قومی ٹیم کے اہم رکن رہے۔ وہ پاکستان ٹیم کے پہلے 42 ٹیسٹ میچوں میں ایک کے سوا تمام میں ٹیم کا حصہ رہے۔
مزید پڑھیں
-
عمران خان ریٹائرمنٹ لینے پر کیوں مجبور ہوئے؟Node ID: 423931
-
منٹو حنیف محمد کی بیٹنگ کے دلدادہ تھے؟Node ID: 426766
-
پاکستان کرکٹ کے ’لٹل ماسٹر‘ کی کہانیNode ID: 428971
سنہ 1954 میں اوول ٹیسٹ میں پاکستان نے تاریخی فتح حاصل کی۔ اس میچ میں انھوں نے فضل محمود کی گیندوں پر سات کھلاڑیوں کو وکٹ کے پیچھے شکار کیا۔ انہوں نے چار ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی قیادت بھی کی۔
امتیاز احمد کی بیٹنگ کی خاص بات ان کا بے جگری سے کھیلنا تھا۔ وہ کسی بولر کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیتے اور نیچرل انداز میں بیٹنگ کرتے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید برکی کی رائے ہے کہ انھوں نے شاٹ پچ گیندوں پر امتیاز احمد سے زیادہ عمدگی سے کسی کو بیٹنگ کرتے نہیں دیکھا۔ دہشت کی علامت ویزلے ہال کی بولنگ کا جس بے خوفی سے انھوں نے لاہور میں سنہ 1959 میں مقابلہ کیا، اس نے ممتاز بیٹسمین ماجد خان کو بھی متاثر کیا۔
ویزلے ہال نے اپنی کتاب Pace Like Fire میں امتیاز احمد کے کھیل کی تعریف کی ہے۔ 1958 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاؤن ٹیسٹ میں 91 رنز کی اننگز کو وہ کیریئر کی سب سے یادگار اننگز قرار دیتے تھے، جس میں ان کے بقول، وہ ایل بی ڈبلیو نہیں تھے لیکن امپائر کے غلط فیصلے کی وجہ سے انھیں پویلین واپس لوٹنا پڑا۔اس سیریز میں انھوں نے سنچری بھی بنائی۔
امتیاز احمد تماشائیوں کے محبوب کھلاڑی تھے جو ان کا جارحانہ کھیل دیکھنے خاص طور پر گراؤنڈ کا رخ کرتے۔
وہ 5 جنوری 1928 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ٹھیک اسی تاریخ اور سال پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی دنیا میں آنکھ کھولی۔ امتیاز احمد کو اس قدرِمشترک کا علم تھا اور وہ اس بارے میں دوسروں کو فخریہ انداز میں بتایا کرتے تھے۔
امتیاز احمد کی شخصیت کا مرکزی حوالہ کرکٹ ہے۔ اس کھیل میں ان کے کارناموں کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ اب ہم ان کی شخصیت کے اس رُخ پر بات کرتے ہیں جس سے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
امتیاز احمد کو پاکستانی ٹیسٹ کرکٹروں میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کا شعری مجموعہ ’میرے شعر‘ کے نام سے سامنے آ چکا ہے۔ غالباً وہ واحد پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر ہیں جن کی شاعری کی کتاب ہے۔ ان کی شاعری میں محبوب سے لگاوٹ کا ذکر بھی ہے، اس کی بے اعتنائیوں کا شکوہ بھی اور اسے کھو دینے کے اندیشے بھی۔ ان کی ایک نظم ملاحظہ ہو:
اندیشہ
تیرے خاموش لبوں پر یہ تکلّم کی نمود
تیری چپ چاپ نگاہوں میں یہ الفت کا پیام
یہ تو سچ ہے کہ یہ آغاز حسیں ہے لیکن
کون جانے کہ اس آغاز کا کیا ہو انجام
یہ تیرے ریشمیں آنچل کی سُنہری چھاؤں
وقت کے ساتھ ہی اک روز نہ ڈَھل جائے کہیں
تیری خاموش نگاہوں میں محبت کا یہ عہد
اس حسیں عہد کا مطلب نہ بدل جائے کہیں
سوچتا ہوں یہ ترا ربطِ مسلسل ہی کہیں
پیش فرمائی احساسِ گریزاں تو نہیں
یہ عنایت یہ نوازش یہ توجّہ یہ کرم
چند لمحات کی تسکین کا ساماں تو نہیں!!
شاعر محبت کو پا کر زندگی میں رنگ بھرنا چاہتا ہے ناآسودہ تمناؤں کو محبوب سے شیئر کرنے کی خواہش بھی اس کے دل میں ہے:
کتنا بے کیف ہے افسانہ ہستی میرا!
اپنے افسانے کا عُنوان بنا لُوں تم کو
وہ تمنّائیں جو سینے میں مچلتی ہیں ابھی
اُن تمنّاؤں کا مفہوم بتا دُوں تم کو
وہ حسیں راگ جو حرفِ لبِ گویا نہ ہوا
اُس حسیں راگ کو اک بار سُنا دُوں تم کو
امتیاز احمد کی شاعری کسی ٹُوٹے ہوئے دل کے درد انگیز نالے ہیں۔ شاعر مریضِ عشق ہے۔ وہ گزرا ہُوا وقت اسے رہ رہ کر یاد آتا ہے جب محبوب کا قرب اسے میسر تھا اور کائنات اسے بہت حسین نظر آتی تھی لیکن پھر قربت کے پھول جیسے لمحے گزرنے پر محبوب سے گلہ بھی کرتا ہے:
کوئی احساس نہ تھا وقت کی گردش کا مجھے
تیرے جلووں کے اُجالوں میں بسر ہوتی تھی
شامِ غم بھی ہے کوئی، مجھ کو یہ معلو م نہ تھا
میری ہر شام بھی صد رشکِ سحر ہوتی تھی
اور اب ٹُوٹ گیا تیری محبت کا فسوں
سوچتا ہوں تجھے بے درد کہوں یا نہ کہوں؟
مل رہی ہے مجھے معصوم نگاہی کی سزا
وائے نادانی کہ میں برق کو حاصل سمجھا
مزید پڑھیں
-
سٹائلش کرکٹر نذر محمد، جو عشق کے ہاتھوں کلین بولڈ ہو گئےNode ID: 425421
-
’ہر اچھا شعر میر کا شعر ہے‘Node ID: 434546
-
وزیر محمد: پاکستان کرکٹ ٹیم کے ’وزڈن‘Node ID: 449406