غوطہ خوری محض تفریح نہیں بلکہ یہ ایک خطرناک مہم بھی ہے۔ فوٹو: سیدتی میگزین
سعودی خواتین اب غوطہ خوری کے میدان میں بھی نمایاں طور پر سامنے آرہی ہیں ۔ مملکت میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں کے بعد جہاں مختلف پیشوں میں سعودی خواتین نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی وہاں کھیلوں کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایاہے۔
فٹبال ، باکسنگ، کراٹے، باسکٹ بال جیسے کھیلوں کے بعد اب غوطہ خوری جیسے مشکل کھیل میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ سعودی خواتین کے حوالے سے دیگر ممالک میں جو تاثر پایا جاتا تھا وہ قطعی طور پر غلط ہے۔
سعودی عرب کے مشرقی ساحلی شہر دمام میں 40 سعودی خواتین کے گروپ نے نہ صرف غوطہ خوری میں مہارت حاصل کی بلکہ انہو ںنے غوطہ خوری کی تربیت دینے کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کر لی۔
مقامی نیوز ویب ' اخبار 24 ' کے مطابق دمام کے غوطہ خوری کلب میں مذکورہ خواتین نے گزشتہ برس ماہ ستمبر میں داخلہ لیا تھا جہاں سے انہوں نے غوطہ خوری کی تربیت مکمل کرنے کے بعد دیگر خواہشمندخواتین کو تربیت دینے کے کورس بھی کیے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ خواتین نے عالمی معیار کے مطابق تربیت مکمل کر لی جنہیں کلب کی جانب سے اسناد بھی جاری کی گئی ہیں۔
اس ضمن میں مقامی روزنامے' الوطن' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا غوطہ خوری کی تربیت دینے والی خاتون کا کہنا تھا کہ' سمندر کی طے میں جانا محض تفریح نہیں بلکہ یہ ایک خطرناک مہم بھی ہے، خاص کر زیر آب تصویر کشی کرنا بعض اوقات بے حد خطرناک بھی ثابت ہو تا ہے'۔
دریں اثناء سیدتی میگزین کے مطابق تبو ک ریجن میں مقیم سعودی خواتین غوطہ خوری میں کافی دلچسپی رکھتی ہیں۔ اکثر غوطہ خور خواتین زیر آب شوقیہ تصویر کشی کے لیے غوطہ خوری سیکھتی ہیں۔
دوسری جانب غوطہ خور امین الشبیلی کا کہنا ہے کہ' مشرقی ریجن میں 10 ہزار سے زائد پیشہ ورغوطہ خور ہیں جو عالمی سطح پر غیر معمولی شہرت کے حامل ہیں'۔
واضح رہے سعودی عرب کے شہر جدہ میں بھی غوطہ خوری کے کلب موجود ہیں جن میں خواتین بھی شوقیہ غوطہ خوری کرتی ہیں۔ ان کلبوں میں خواتین کے شعبے بھی ہیں جہاں خواتین کو غوطہ خوری سیکھائی جاتی ہے۔