Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فضول انٹرنیٹ کی بحالی سے توہین ہوئی‘

تقریبا چھ ماہ کے عرصے کے بعد انڈیا کے زیراتظام کشمیر میں گزشتہ شب انٹرنیٹ کی جزوی بحالی ہوئی تو سوشل میڈیا نے اسے کشمیر میں حالات معمول بہتر ہونے کی کوشش کے بجائے کنٹرول مزید سخت کرنے سے تعبیر کیا۔
انڈین حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب سے سوشل میڈیا کے علاوہ دیگر چند درجن ویب سائٹس تک رسائی بحال کی جا رہی ہے۔ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مودی حکومت نے اگست 2019 کی ابتدا میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ اس دوران ہزاروں مزید فوجی تعینات کرتے ہوئے کشمیری قیادت کو گرفتار یا نظربند کر دیا گیا تھا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے نے انٹرنیٹ بحالی کے متعلق خبر میں کہا ہے کہ ہفتے کو اٹھائے گئے اقدام کے تحت حکومت کی منظور کردہ صرف 301 ویب سائٹس تک رسائی کی اجازت ہو گی۔
جموں و کشمیر ہوم ڈیپارٹمنٹ کے نوٹیفیکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ انٹرنیٹ تک یہ رسائی سوشل میڈیا استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔ موبائل انٹرنیٹ کو بھی انتہائی محدود پیمانے پر 2جی کی سپیڈ پر بحال کیا گیا ہے۔
انڈین حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش، کرفیو اور گرفتاریوں نے 70 لاکھ سے زائد کشمیریوں کے لیے روزمرہ کی زندگی دشوار بنانے کے علاوہ مقامی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا تھا۔
سوشل میڈیا صارفین نے انٹرنیٹ کی محدود بحالی پر انڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دیا۔ سشانت سنگھ نامی انڈین صحافی نے لکھا کہ جنوری 2020 تک دنیا بھر میں ایک ارب 74 کروڑ سے زائد ویب سائٹس ہیں، وادی کشمیر میں ان میں سے صرف 301 تک رسائی میسر ہو گی۔
امیتابھ ڈوبے نامی صارف نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے لکھا کہ آئی کلاؤڈ اور ڈراپ باکس جیسی کلاؤڈ سروسز فہرست کا حصہ نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ کو خبر تو میسر لیکن اپنی ہی فائلز تک رسائی نہ ہو۔

اطہر پرویز نامی ہینڈل نے انڈین اقدامات پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ کشمیر میں جب بھی کوئی صحافی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے میڈیا سینٹر کا رخ کرتا ہے تو وہ طرح طرح کے خدشات کا شکار ہوتا ہے۔
کیرن جودھا فشر نامی صارف نے کشمیر میں انٹرنیٹ کی جزوی بحال کو توہین اور بیکار قرار دیا۔
ابن سینا نامی ہینڈل نے حکومتی اقدامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے لکھا کہ جو کچھ وی پی این کے ذریعے ایکسس کیا جا سکتا ہے اس پر پابندی عائد رکھنا اپنا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
میراج دین نامی ایک صارف نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ کپواڑہ میں حکومتی انٹرنیٹ فیسیلیٹی کے باہر یہ طلبہ منفی درجہ حرارت میں کئی گھنٹوں سے لائن بنا کر کھڑے ہیں تاکہ اپنے آن لائن فارم جمع کر سکیں۔ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایسے ترقی دے رہی ہے۔
 

شیئر: