انڈیا میں دہلی کا شاہین باغ مزاحمت کی علامت کیسے بنا؟
انڈیا میں دہلی کا شاہین باغ مزاحمت کی علامت کیسے بنا؟
بدھ 29 جنوری 2020 6:16
ایمان حسن -اردو نیوز، اسلام آباد
شاہین باغ کے شرکا نے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کیا۔ فوٹو سوشل میڈیا
دسمبر 2019 میں انڈیا کی پارلیمان نے شہریت کا ترمیمی بل منظور کیا تو دہلی کی چند خواتین بھی گھروں سے نکلیں اور انہوں نے حکومت مخالف احتجاج کے لیے دریائے یمنا کے کنارے واقع شاہین باغ کا رخ کیا۔
اسی دوران انڈیا کے مختلف حصوں میں بھی شہریت بل کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے، طلبا نے بھرپور مخالفت کی، فیض احمد فیض کی انقلابی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ سڑکوں اور چوکوں پر گونجنے لگی۔
آہستہ آہستہ ریاست کی طاقت کے سامنے مظاہرین کا جوش دھیما پڑتا گیا اور زندگی معمول پر آنے لگی، لیکن دہلی کے شاہین باغ کے شرکا کا جذبہ ماند نہ پڑا۔
دیکھتے ہی دیکھتے چند خواتین کے قدموں سے جنم لینے والی مزاحمت انڈیا کے طویل ترین احتجاج میں تبدیل ہو گئی۔
انڈین میڈیا کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین شاہین باغ احتجاج میں شریک ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت مسلمان خواتین کی رہی ہے۔ اسی وجہ سے باغ کو ’چھوٹے پاکستان‘ سے بھی مماثلت دی گئی ہے۔
شاہین باغ کے شرکا کا احتجاج صرف شہریت بل تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ پولیس کی طلبا پر بربریت کے خلاف بھی آواز اٹھائی گئی اور کشمیری پنڈتوں کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کیا۔
دھرنے کا مقام ثقافتی جامعیت، مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی علامت بنتا جا رہا ہے جہاں قرآن، بائبل اور گیتا سے اقتباسات پڑھے جاتے ہیں۔
فیض احمد فیض، حبیب جالب، علامہ اقبال اور رامدھری سنگھ کی نظمیں دہرائی جاتی ہیں۔ جہاں عالمی مسائل پر تقاریر اور لیکچرز دیے جاتے ہیں بلکہ ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے جہاں آئین، انقلاب، جبر اور نسل پرستی پر آگہی کے لیے کتابیں رکھی گئی ہیں۔
انڈیا کے نامور سیاستدان اور مصنف ششی تھرور بھی باغ کا دورہ کر چکے ہیں۔ حال ہی میں کانگریس لیڈر منی شنکر نے باغ کا دورہ کیا تھا اور شرکا کو ان کی ثابت قدمی کی داد دی تھی۔
شاہین باغ احتجاج سے متاثر ہو کر انڈیا کے دیگر شہروں کے پارکوں میں بھی مظاہرین اکھٹے ہوئے تھے لیکن ریاست کی ہٹ دھرمی کے سامنے زیادہ دیر ڈٹ نہ سکے۔
باغ کے شرکا کو دھرنا ختم کرنے پر قائل کرنا انتخابی مہم کا نعرہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ دہلی کی قانون ساز اسمبلی کے امیدوار اپنی انتخابی مہم میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ جیتنے کی صورت میں وہ دھرنا ختم کروائیں گے۔ 8 فروری کو ہونے والے اسمبلی الیکشن کے لیے انتخابی مہم آج کل دہلی میں زوروں پر ہے۔
انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کے لیے ووٹ کرنے سے شاہین باغ جیسے ہزاروں واقعات رک جائیں گے۔
ان کے اس بیان پر کانگریس کے سینیئر رہنما پی جد مبرم نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مہاتما گاندھی کی توہین کرنے والے ہی شاہین باغ سے نجات چاہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ شاہین باغ مہاتما گاندھی کی اصل سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔
دھرنے کے خلاف چار درخواستیں عدالت میں جمع کروائی جا چکی ہیں لیکن دہلی کی ہائی کورٹ نے اسے پولیس کا معاملہ قرار دیتے ہوئے درخواستوں پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔
پولیس کے لیے کارروائی کرنا اس لیے بھیمشکل ہو گیا ہے کیونکہ دھرنا کسی خاص شخص یا جماعت کی سربراہی میں نہیں ہو رہا بلکہ شہری اپنی انفرادی حیثیت میں دھرنے میں شریک ہو رہے ہیں۔
اب سپریم کورٹ سے اس معاملے کو نمٹانے کی امید کی جا رہی ہے، کہ شاید گزشتہ 45 دنوں سے جاری یہ دھرنہ اختتام کو پہنچ جائے۔
شاہین باغ دھرنے کا انجام جو بھی ہو لیکن عوامی مزاحمت اور انقلاب کی تاریخ میں یہ وہی مقام بنانے جا رہا ہے جو مصر کے تحریر اور ترکی کے تقسیم سکوائر نے حاصل کیا۔