پاکستان میں شہریوں کی تصاویر، ویڈیوز، بینک اور ذاتی معلومات کو لیک ہونے سے بچانے کے لیے حکومت نے ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو ڈیٹا کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا ہے کہ ’پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ‘ نام کا ایک قانون تیار کر لیا گیا ہے جسے ایک یا دو ھفتوں میں وزارت کی ویب سائٹ پر عوامی آرا کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ذاتی ڈیٹا لیک ہونے سے عام لوگوں اور مشہور شخصیات کی پرائیویسی، ساکھ، مالی مفاد اور حتیٰ کہ جان کو بھی خطرہ لاحق رہتا ہے تاہم حکومت نے اب اس معاملے پر حتمی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
صارفین کی پرائیویسی : فیس بک کو پانچ ارب ڈالر جرمانہNode ID: 425576
-
ملک کی پوری آبادی کا ذاتی ڈیٹا لیک ہوگیاNode ID: 434036
-
ای میل اور ڈیٹا محفوظ کیسے رکھیں؟Node ID: 447661
دنیا کے بہترین قوانین کے مطالعے کے بعد بنائے جانے والے نئے قانون کے تحت ایک خودمختار ڈیٹا اتھارٹی بنائی جائے گی جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ حکومتی اور پرائیویٹ ادارے عوام کی معلومات، تصاویر اور ویڈیوز کو ان کی مرضی کے بغیر استعمال کریں اور نہ ہی انہیں شیئر کریں۔
حکام کے مطابق نئے قانون کے تحت کسی بھی شہری کے ڈیٹا کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور کسی کی مرضی کے خلاف اس کی معلومات جیسے فون نمبر، ای میل، تصاویر، ویڈیوز، قومی شناختی کارڈ نمبر، بینک اکاؤنٹ نمبر اور میڈیکل رپورٹس شیئر کرنا قابل سزا جرم ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ ’نئے قانون کے حوالے سے حکومت نے پہلے ہی تمام فریقین، جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے، ٹیلی کام کے ادارے اور دیگر متعلقہ اداروں سے کسی حد تک مشاورت کر لی ہے۔‘
ذرائع کے مطابق ڈیٹا کنٹرول کرنے والے ادارے (جیسے نادرا، سیف سٹی پروجیکٹ وغیرہ) اس کو پروسیس کرنے والے ( جیسے موبائل فون کمپنیاں وغیرہ) اور اس کا استعمال کرنے والے( عام صارفین اور شہری) نئے قانون کے دائرے میں آئیں گے۔
ڈیٹا کے تحفظ کے قانون کی ضرورت
یاد رہے کہ پرائیویٹ اداروں کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں، جیسے نادرا اور سیف سٹی منصوبوں پر بھی ماضی میں عوام کی معلومات اور ویڈیوز لیک کیے جانے کے الزامات لگتے رہے ہیں اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے سرکاری اداروں کے محاسبے اور عوام کی پرائیویسی کے تحفظ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
اسی طرح عوامی شخصیات اور فنکاروں کی ذاتی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر لیک ہوتی رہی ہیں۔
عوام کے آن لائن حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی سربراہ صدف بیگ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کے ادارے نے ڈیٹا لیک ہونے پر پارلیمانی اداروں کو متعدد بار خطوط لکھ کر قانون سازی کی ضرورت پر توجہ دلائی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں لوگوں کی ویڈیوز، تصاویر اور معلومات کا افشا ہونا اتنا عام ہے کہ اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘
’یہاں بینکوں سے ڈیٹا چوری ہو جاتا ہے، جعلی اکاؤنٹس کیس ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح کئی واٹس ایپ گروپس ہیں جہاں لڑکیوں کے فون نمبرز باقاعدہ بیچے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ ڈیٹا کا تحفظ کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں کہ جب کوہستان میں شادی کی تقریب میں ڈانس کرنے والی لڑکیوں کی ویڈیوز لیک ہوئی تھیں تو اس کا نتیجہ ان کے قتل کی صورت میں نکلا تھا۔‘
صدف بیگ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی حکومت کو قانون سازی کرتے ہوئے یورپی یونین کے قانون جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) سے رہنمائی لینا چاہیے تاکہ پاکستانی سافٹ ویئر کی برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی سربراہ نگہت داد نے کہا کہ ’پاکستان نے پہلے ہی ڈیٹا کے تحفظ پر قانون سازی میں دیر کر دی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’نئے قانون کونجی کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں پر بھی لاگو ہونا چاہیے کیونکہ سب سے زیادہ عوامی ڈیٹا لیک ہونے کا خطرہ ایسے اداروں سے ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’نادرا پر وکی لیکس میں الزام لگا تھا کہ اس نے ماضی میں پاکستانی عوام کا ڈیٹا غیرملکی ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کیا تھا، اسی طرح مبینہ طور پر سیف سٹی پروجیکٹ کے ملازمین کے ذریعے شہریوں کی گاڑیوں میں بیٹھے بنائی گئی تصاویر بھی لیک ہوئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نادرا اور دیگر حکومتی ادارے بتائیں کہ وہ عوامی ڈیٹا کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔‘
نگہت داد کے مطابق ’قانون کی عدم موجودگی میں نجی شعبے میں بھی ڈیٹا لیک کی شکایات عام ہیں اور کئی بار سنیما میں بیٹھے لوگوں اور حتیٰ کہ ملبوسات کی دکانوں میں ٹرائی رومز کی ویڈیوز بھی بنائی جاتی رہی ہیں اور انہیں لیک بھی کیا جاتا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں عوامی سطح پر ڈیٹا کے تحفظ کے حوالے سے آگاہی بھی نہیں ہے اس لیے لوگ اپنی معلومات جیسے فون نمبر، شناختی کارڈ اور پتا حتیٰ کہ بینک اور اے ٹی ایم معلومات شیئر کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں جبکہ مغربی ممالک میں اس حوالے سے خاصی احتیاط برتی جاتی ہے۔‘
نگہت داد نے کہا کہ ’سی سی ٹی وی کیمرے ہر جگہ لگے ہیں لیکن وہ ڈیٹا کس کے پاس رہتا ہے اور کیسے استعمال ہوتا ہے کسی کو پتا نہیں ہوتا۔‘
ان کے مطابق لوگوں کی پرائیویٹ ویڈیوز لیک ہونے پر زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں اور خودکشیوں کے کئی واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کا فرض ہے کہ چادر اور چاردیواری کے تحفظ کو آن لائن بھی یقینی بنائے اور اس حوالے سے آگاہی پیدا کرے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈیٹا کے تحفظ پر قانون سازی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ بین الاقوامی سطح پر اس سلسلے میں سخت قوانین ہیں اور پاکستانی کی آئی ٹی کی مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانے اور قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں ڈیٹا پروٹیکشن کے موثر قوانین موجود ہوں۔‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں