یہ ایک سمندر ہے، بہت ہی گہرا سمندر
اس سمندر میں پانی نہیں ہے
اس میں پرزے ہیں۔ گاڑیوں کے پرزے۔ اور ہر طرح کے پرزے۔ نئے اور پرانے پرزے۔ اصلی اور نقلی پرزے۔ پرزے جو جہاں آپ فٹ کرنا چاہیں۔ پرزے جو آپ کو کہیں اور سے نہ ملیں۔
یہ چاہ سلطان ہے۔ راولپنڈی کا چاہ سلطان۔
اس کے ایک سرے سے داخل ہوں تو لگتا ہے کہ آپ پرزوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے ہیں، اور دوسرے سرے تک پہنچتے پہنچتے آپ کو شام ہو جاتی ہے۔ اس دوران آپ گاڑیوں کے پرزوں کے بیچ ہی رہتے ہیں۔
وسیع رقبے پر پھیلے اس بازار کی دکانوں کے باہر لٹکتی سرخ و سفید رنگ کی لائٹیں اور شو رومز کے باہر پڑے ہر قسم کی گاڑیوں کے بونٹس، بوٹس، چھتیں اور دیگر پرزے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ پلک جھپکتے ہی راولپنڈی سے جاپان میں آٹو موبائلز کے کسی انڈسٹریل شہر پہنچ گئے ہوں۔
مزید پڑھیں
-
امریکہ جیپیں بھیجنے والا پاکستانی مکینکNode ID: 455651
-
راولپنڈی: رکشہ آج بھی اندرون شہر کا راجہNode ID: 455976
اس تاریخی چاہ سلطان (سلطان دا کھوہ) بازار کے عجیب رنگ ڈھنگ ہیں۔ یہاں سے خریداروں کو 1968 یا اس سے بھی پہلے سے لے کر 2020 ماڈل تک کی لگ بھگ تمام کمپنیوں کی گاڑیوں کے ہر طرح کے سپیئر پارٹس مل جاتے ہیں۔
آپ کو کسی بھی ماڈل کی گاڑی کا سائیڈ مرر چاہیے ہو یا مکمل انجن، چھت، دروازے، ٹائر یا میٹر کی سوئی، کچھ بھی چاہیے ہو تو سیدھے ’چاہ سلطان‘ چلے جائیں۔ یہاں آپ کو ہر چیز عام مارکیٹ سے کم قیمت پر مل جائے گی۔
یہاں کے تاجروں کے بقول اس مارکیٹ سے ایسے انجن بھی مل جاتے ہیں جو بمشکل چند کلو میٹر ہی چلے ہوتے ہیں۔ گویا اگر آپ کی جیب میں پیسے ہیں اور آپ اپنی مرضی سے گاڑی تیار کروانا چاہتے ہیں تو اس بازار سے آپ کو ہر چیز مل جائے گی۔ آپ ایک ایک پرزہ اور حصہ خود خریدتے جائیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے ان کو جڑوا کر مکمل گاڑی کی شکل دے دیں۔
چکلالہ روڈ، گلاس فیکٹری اور راول روڈ پر پھیلی اس منفرد مارکیٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت یہاں پانی کا ایک کنواں ہوا کرتا تھا، کنوے کے پاس ایک بزرگ قیام پذیر تھے جن کا نام سلطان تھا، یہی وجہ ہے کہ اس جگہ کا نام ’سلطان دا کھوہ‘ پڑ گیا۔
گذشتہ دو دہائیوں سے اس بازار میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس فروخت کرنے والے اعجاز خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے۔ انہیں یہ کام اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے۔
اعجاز بتاتے ہیں کہ 1980 کی دہائی تک ’سلطان دا کھوہ‘ ایک رہائشی علاقہ تھا اور یہاں سپیئر پارٹس کی چند ہی دکانیں تھیں، جب افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ شروع ہوئی تو سینکڑوں افغان باشندے جاپان ہجرت کر گئے جہاں سے انہوں نے کابل میں سپیئر پارٹس سمگل کرنا شروع کر دیے۔
ان کے مطابق بعد ازاں افغان باشندوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی تو طورخم کے راستے اپنے ساتھ گاڑیوں کے پرزے بھی لانا شروع کر دیے۔ ’سمگلنگ کی وجہ سے پشاور کے شُعبہ بازار اور راولپنڈی کے چاہ سلطان بازار میں سپیئر پارٹس کا کام عروج پر پہنچ گیا۔‘
پیسے والوں نے ’سلطان دا کھوہ‘ کا رخ کیا تو شورومز نے برسوں سے آباد گھروں کو نگلنا شروع کر دیا۔ مقامی لوگوں نے جاپان سے کابل اور پھر کابل سے پاکستان پہنچنے والے سامان کو 'کابلی مال' کا نام دیا۔
اعجاز خان بتاتے ہیں کہ 2008 تک تمام اقسام کے سپیئر پارٹس طورخم کے راستے ہی پاکستان آتے تھے مگر پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان کی درآمد پر سے پابندی ہٹا دی جس کے بعد کنٹینرکراچی کی بندرگاہ سے یہاں راولپنڈی اور لاہور میں کھلنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ 2014 تک سمگلنگ کا مال آنا بالکل بند ہو گیا۔
چاہ سلطان بازار میں اس وقت دو ہزار سے زائد دکانیں ہیں، یہاں صبح 10 بجے سے شروع ہونے والا سپیئر پارٹس کی لین دین کا میلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے مگر دکانداروں کو شکایت ہے کہ اب یہ کام ماضی کی طرح منافع بخش نہیں رہا۔
ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایک دکاندار نواز باجوڑی کے بقول موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کے کاروبار کو اچھا خاصا دھچکا لگا ہے۔ ’گذشتہ حکومت میں 660 سی سی انجن کی درآمد پر 13 ہزار روپے ڈیوٹی لگتی تھی کیونکہ ڈالر کا ریٹ کافی کم تھا لیکن اب یہ ڈیوٹی بڑھ کر تقریباً 27 ہزار روپے ہو گئی ہے۔ دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بھی کم ہوئی ہے جس سے ہمارا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔‘
نواز کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں تاجر روپے میں کاروبار کرتے ہیں مگر درآمدات پر ٹیکس ڈالروں میں لگتا ہے جس سے انہیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ’ڈیوٹی مقامی کرنسی میں ہو تو چیزوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نہیں آتا اور کاروبار اچھے طریقے سے چلتا رہتا ہے۔‘
تاجروں کی حکومت سے شکایات اپنی جگہ مگر مہنگائی کے اس دور میں بھی گاہگوں کے لیے یہ بازار کسی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ یہاں پائیدار اور غیرملکی چیزیں بھی سستے داموں مل جاتی ہیں۔
فضل وہاب پشاور سے اپنی ٹویوٹا کرولا 2015 ماڈل کا دروازہ خریدنے چاہ سلطان بازار آئے ہیں۔ ان کی گاڑی کے دروازے کو چند روز قبل ایک حادثے میں نقصان پہنچا تھا جس کے بعد انہوں نے پشاور کے شعبہ بازار سمیت کئی جگہوں پر اس کو تلاش کیا مگر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
فضل وہاب کہتے ہیں کہ ’مجھے اس بازار سے بہترین حالت میں دروازہ 22 ہزار روپے میں ملا ہے، اس دروازے کی قیمت جب میں نے کمپنی سے معلوم کی تھی تو انہوں نے 45 ہزار روپے قیمت بتائی تھی۔ میں خوش ہوں کہ مجھے چیز بھی اچھی مل گئی ہے اور پیسے بھی زیادہ نہیں لگے۔‘
سپیئر پارٹس ڈیلرز کے بقول وہ گاڑیوں کے زیادہ تر پارٹس جاپان، سنگاپور، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، تائیوان، ہانگ کانگ اور انگلینڈ سے درآمد کرتے ہیں مگر پاکستان میں جاپانی پارٹس کی مانگ سب سے زیادہ ہے لہٰذا زیادہ تر مال بھی وہاں سے ہی آتا ہے۔
جاپان سے محبت
ایک طرف جہاں گاہکوں میں جاپانی سپیئر پارٹس خاصے مقبول ہیں تو وہیں دوسری طرف چاہ بازار کے تاجروں کی جاپان سے محبت کی بھی ایک الگ ہی داستان ہے۔ یہاں کے بیشتر تاجر یا تو جاپان جا چکے ہیں یا آنکھوں میں یہ خواب سجائے بیٹھے ہیں کہ ایک دن ان کو ویزا ملے گا اور وہ اگلے ہی دن ٹکٹ لے کر ٹوکیو پہنچ جائیں گے۔
اعجاز خان کہتے ہیں کہ یہ مارکیٹ جاپان کے سہارے کھڑی ہے اور اسے اصل میں وہ تاجر چلاتے ہیں جن کے بھائی یا بیٹے جاپان کے شہروں سے مال لے کر یہاں بھیجتے ہیں۔ ’اگر کسی تاجر کا ایک بھائی جاپان میں ہے اور وہ خود یہاں شو روم چلا رہا ہے تو سب سے زیادہ منافع یہی بندہ کماتا ہے کیونکہ اسے مڈل مین کو پیسے نہیں دینا پڑتے اور وہ مال بھی اپنی مرضی کا منگواتا ہے۔ آپ یوں کہہ لیں کہ وہ اس مارکیٹ کا چوہدری ہے۔‘
اعجاز خود بھی گذشتہ کئی برسوں سے جاپان جانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر انہیں شکوہ ہے کہ جاپانی سفارت خانہ انہیں بزنس ویزا دینے کو تیار نہیں۔ ’کچھ سال پہلے تک جاپان اور آسٹریلیا کا بزنس ویزا مل جاتا تھا لیکن اب ہم جیسے سینکڑوں لوگ ہاتھ میں 20،20 لاکھ روپے لیے پھرتے ہیں مگر ان دونوں ممالک کا ویزہ نہیں ملتا۔‘
اعجاز کا خواب ہے کہ اگر ایک دن انہیں جاپان کا ویزہ مل گیا تو ان کا کاروبار ایسا چلے گا کہ ان کی نسلیں سنور جائیں گی۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں