جب سے رائیڈ شیئرنگ ایپس آئی ہیں اور لوگوں کو آرام دہ ٹرانسپورٹ موبائل فون کے ذریعے گھروں کے دروازوں پر ملنا شروع ہوئی ہے، اب ہر عمر کے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ موبائل فون سے گاڑی بک کریں اور اپنے دروازے سے سیدھے منزل مقصود پر جا پہنچیں۔
لیکن پھر بھی راولپنڈی کے کچھ علاقوں کی گلیوں کا آج بھی رکشہ راجہ ہے۔ رکشے میں بیٹھ کر اندرون شہر کی گلیوں میں پھرنے میں ایک عجیب سی رومانویت ہے۔
آپ اندرون شہر سفر کر رہے ہیں اور ٹریفک جام کی اذیت سے بچنا چاہتے ہیں تو کسی بھی گلی کے نکڑ سے رکشہ بک کروائیں اور بغیر کسی جھنجھٹ کے منزل پر پہنچ جائیں ۔
راولپنڈی شہر میں دس سال سے رکشہ ڈرائیور عمران بٹ کہتے ہیں کہ آن لائن ٹیکسی اور بائیک سروس کے باوجود رکشہ کی سواری کو آج بھی شہری ترجیح دیتے ہیں۔ ’گاڑیاں زیادہ ہو گئی ہیں لیکن رکشے کا کام اسی طرح جاری ہے۔‘
عمران بٹ بتاتے ہیں کہ ’اس سواری کی خاص وجہ ہے کہ یہ گلیوں میں بھی چلا جاتا ہے جبکہ آن لائن سروس والی گاڑیاں گلیوں میں نہیں جاتیں اور یہی وجہ ہے کہ اس سروس سے رکشے کی سواری میں کمی نہیں آئی۔‘
’رستہ رکشے والا ہی بتاتا ہے‘
شہر کے کسی بھی چوک میں چلے جائیں، رکشے کی سواری باآسانی دستیاب ہوتی ہے۔
رکشے کی سواری کا جہاں یہ فائدہ ہے کہ آپ باآسانی تنگ سے تنگ گلیوں میں بھی جاسکتے ہیں وہیں ہر چوک میں موجود رکشہ ڈارئیور کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ راستہ بھول گئے یا پتہ معلوم کرنا ہے تو کسی بھی رکشے والے سے آپ پوچھیں وہ آپ کو درست منزل تک پہنچا دے گا۔
رکشہ ڈرائیور نعیم کہتے ہیں کہ’بازار میں رکشہ آسانی سے مل جاتا ہے اس لیے لوگ انتظار کرنا پسند نہیں کرتے اور آن لائن ٹیکسی ڈارئیور تو اندرون شہر آنا ہی پسند نہیں کرتے۔ رکشے والوں کو گلیوں کے اندر شارٹ کٹ راستوں کا بھی علم ہوتا ہے۔ کسی کو راستہ پوچھنا ہوتا ہے تو وہ رکشے والے سے ہی پوچھتا ہے۔‘
رکشے کے کرایے پر تکرار۔۔۔ایک روایت
رکشے کی سواری دوسری ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں نسبتاً سستی ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس کے کرائے پر تکرار ضرور ہوتی ہے اور اس تکرار نے اب ایک روایت کی شکل اختیار کر لی ہے۔
عمران بٹ کہتے ہیں کہ رکشے کو سکول جانے کے لیے بچے بھی استعمال کرتے ہیں، نوجوان بھی اس کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور خواتین بھی، اور کرائے پر تکرار بھی سبھی کرتے ہیں۔ ’لیکن خواتین کرائے پر زیادہ بحث کرتی ہیں۔‘
’ان کو سمجھنا چاہیے کہ رکشہ ڈرائیور مجبور اور غریب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ دس بیس روپے کی تکرار درست نہیں، آپ ہوٹلوں پر جاتے ہیں تو وہاں دس بیس روپے ویسے ہی ٹپ دے دیتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ بھاؤ تاؤ کیا جاتا ہے۔‘