پاکستان کی قومی اسمبلی نے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے قرار داد کی مخالفت کی گئی۔
قرارداد وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ’بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سر عام پھانسی دی جائے۔‘
قرارداد پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ ’بچوں سے زیادتی کے مجرمان کے لیے وزیراعظم سزائے موت چاہتے ہیں۔ زینب الرٹ بل میں بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کا مطالبہ آیا تو اس کی مخالفت کی گئی۔‘
مزید پڑھیں
-
’ جنسی تعلیم شرمندگی نہیں، بچوں کی حفاظت کے لیے ضروری‘Node ID: 421021
-
’چونیاں میں بچوں سے زیادتی کے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا‘Node ID: 436236
-
’بچوں سے زیادتی کے مجرموں کا مرکزی ڈیٹا بینک ضروری ہے‘Node ID: 436691
انہوں نے کہا کہ ’حکومت اب بھی بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کا قانون بنانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن بتائے وہ بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کے بل کی حمایت کرنے کو تیار ہے؟ این جی اوز سرعام سزائے موت کی مخالف ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی نے بچوں سے زیادتی کے مجرمان کی سرعام سزائے موت دینے کی مخالفت کی۔
سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ’پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر چکا ہے، دنیا اسے قبول نہیں کرے گی۔ بہتر ہو گا کہ ایسے ملزمان کو عمر قید کی سزا دی جائے۔‘
سپیکر اسد قیصر کی جانب سے قرارداد پر رائے شماری کرائی گئی تو ایوان نے کثرت رائے سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو سرعام سزائے موت دینے کی قرارداد منظور کر لی۔
The resolution passed in NA today on public hangings was across party lines and not a govt-sponsored resolution but an individual act. Many of us oppose it - our MOHR strongly opposes this. Unfortunately I was in a mtg and wasn't able to go to NA.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) February 7, 2020
قرارداد منظور ہونے کے فوراً پاکستان تحریک انصاف کے دو وزرا وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹس میں اس کی مخالفت کر دی۔
فواد چوہدری نے لکھا کہ ’ میں اس قرارداد کی سخت مذمت کرتا ہوں۔ یہ قرارداد شدت پسندی کے اظہار کی ایک علامت ہے۔ معاشرے ہمیشہ توازن کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ جرم کا جواب بربریت سے نہیں دیا جاتا۔‘
Strongly condemn this resolution this is just another grave act in line with brutal civilisation practices, societies act in a balanced way barberiaism is not answer to crimes...... this is another expression of extremism pic.twitter.com/ye2abes8Dc
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) February 7, 2020
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے قرارداد کی مخالفت میں ٹویٹ کی اور لکھا کہ ’یہ قرارداد پارٹی کی جانب سے پیش نہیں کی گئی بلکہ یہ ایک انفرادی فعل تھا، ہم میں سے کئی نے اس کی مخالفت کی اور میری وزارت بھی اس قرارداد کی مخالفت کرتی ہے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے رواں سال 10 جنوری کو زینب الرٹ بل پاس کیا تھا جس کے تحت ان افسران کو سزا سنائی جائے گی جو دو گھنٹے کے اندر بچے سے متعلق جرم پر ردِعمل نہیں دیں گے۔
قومی اسبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر بل منظور کیا تھا۔ بل کے متن میں یہ بھی لکھا گیا کہ بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہو گا۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں