’بچوں سے زیادتی کے مجرموں کا مرکزی ڈیٹا بینک ضروری ہے‘
’بچوں سے زیادتی کے مجرموں کا مرکزی ڈیٹا بینک ضروری ہے‘
ہفتہ 5 اکتوبر 2019 4:50
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
پولیس کے مطابق ڈیٹا بینک کے لیے ماسٹر پلان تیار ہو رہا ہے، فوٹو: اے ایف پی
چار بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے ملزم سہیل شہزاد کے ماضی میں اسی جرم میں جیل جانے کے انکشاف پر پنجاب پولیس نے تجویز دی ہے کہ ایسے مجرموں کی حرکات و سکنات کی نگرانی کے لیے ایک مرکزی فہرست تیار کی جائے اور ان کی نقل و حرکت کی ٹریکنگ کی جائے۔
پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں ہونے والی وارداتوں میں ملوث سہیل شہزاد جب منگل کو گرفتار ہوا تو انکشاف ہوا کہ وہ 2011 میں بھی ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے جرم میں جیل جا کر رہا ہو چکا ہے۔
اس انکشاف سے یہ سوال پیدا ہوا کہ اس طرح کے خطرناک عادی مجرم پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں بار بار اتنی گھناؤنی وارداتیں کیسے کر پاتے ہیں اور کیا ان کا کوئی مرکزی ڈیٹا بینک بنایا جاتا ہے جہاں ان کی تفصیلات درج ہوں؟
اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
فورتھ شیڈول کی طرح کی لسٹ کی تجویز
ملزم سہیل شہزاد سے تفتیش کی نگرانی کرنے والے ضلع شیخوپورہ کے ریجنل پولیس افسر ڈاکٹر سہیل حبیب تاجک نے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس حکام حکومت کو تجویز دیں گے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں کا ایک ڈی این اے ڈیٹا بینک بنایا جائے تاکہ اس طرح کے کسی واقعے کی صورت میں فوری طور پر ملزموں تک پہنچا جا سکے۔
یاد رہے کہ ملزم سہیل شہزاد کی شناخت بھی ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ہی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر سہیل تاجک کے مطابق ’فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی طرح ایسے افراد پر بھی لازم کیا جائے کہ وہ متعلقہ تھانے کو اپنی نقل و حرکت سے آگاہ رکھیں، اور دوسری جگہ جا کر آباد ہونے کی صورت میں بھی نئے تھانے میں جا کر ایس ایچ او کو آگاہ کریں۔‘
واضح رہے کہ فورتھ شیڈول کے تحت دہشت گردی کے حوالے سے مشکوک افراد کی فہرست بنائی جاتی ہے اور ان پر سفری اور کاروباری پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔
سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ پولیس حکام اس سلسلے میں ایک ماسٹر پلان کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ اور چند دیگر ممالک میں جنسی زیادتی کے مجرموں کا اندراج ایک رجسٹری میں کیا جاتا ہے اور وہ رجسٹری عام طور پر عوام کو انٹرنیٹ پر دستیاب ہوتی ہے۔
اسی طرح ایسے مجرموں کو عوامی علاقوں میں رہائش نہیں دی جاتی اور انہیں ایسی جگہوں پر ملازمت بھی نہیں مل سکتی جہاں ان کے جرائم کے اعادے کا امکان ہو۔
بچوں سے متعلق اداروں میں ملازمت کیسے دی جائے؟
بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ’ساحل‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزے بانو کے مطابق زیادتی کے جرم کا ایک بار ارتکاب کرنے والے افراد کا رجسٹر بنانا ضروری ہے اور اس حوالے سے ان کی تنظیم کافی عرصے سے مطالبہ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملازمت دیتے وقت ایسے قواعد و ضوابط بنائے جائیں کہ ایسے تمام اداروں میں جہاں بچوں کی آمدورفت ہو وہاں ملازمین کا ریکارڈ چیک کیا جائے، ایسا تب ہی ممکن ہو گا جب ملزمان کا مرکزی رجسٹر موجود ہو گا۔‘
ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے ساڑھے تین ہزار واقعات ہوئے۔
ڈی این اے ڈیٹا بینک بنانا مہنگی مشق ہو گی
نیشنل پولیس بیورو کے سابق ڈی جی اور ماضی میں آئی جی سندھ کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے سابق پولیس افسر افضل علی شگری کے مطابق زیادتی کے ملزمان کا ڈی این اے ڈیٹا بینک بنانا خاصا مہنگا ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ یہ ٹیسٹ پاکستان میں اب بھی قریباً ایک لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں پولیس کے نظام میں عادی مجرموں کا خفیہ رجسٹر ہر تھانے میں ایس ایچ او کے پاس ہوتا تھا مگر اب پولیس میں سیاسی مداخلت اور افسران کے جلد ہونے والے تبادلے کی وجہ سے یہ روایت دم توڑ رہی ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہی وجہ ہے کہ چونیاں کیس میں اور زینب کیس میں بھی پولیس کو ملزمان تک پہنچنے میں دیر لگی اور اس دوران وہ کئی وارداتیں کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘
افضل شگری نے کہا کہ ’بہرحال پولیس کو عادی مجرمان کا ڈیٹا بینک بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ جونہی کسی علاقے میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا واقعہ سامنے آئے پولیس مشکوک افراد کی گذشتہ سرگرمیوں کا جائزہ لے کر ملزم تک پہنچ جائے۔‘
سابق آئی جی کے مطابق ڈیٹا بینک بنانے اور ملزمان کی نقل و حرکت کی نگرانی کے لیے نئی قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں بلکہ صرف ایک فیصلے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پولیس کا بجٹ بڑھایا جائے اور معاشرے کے دیگر طبقوں کو بھی اس گھناؤنے جرم کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنے پر قائل کیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس افسران کو مستقل مدت کے لیے تعینات کر کے ان کی کارکردگی کو جانچا جائے تو انصاف کا تقاضے پورے ہوں گے۔‘
چونیاں ملزم کا دوسرا کریمینل ریکارڈ بھی سامنے آ گیا
ڈاکٹر سہیل تاجک کے مطابق ملزم سہیل شہزاد سے تفتیش میں پانچ بار بچوں سے زیادتی اور چار قتل کی وارداتوں کے علاوہ چوری اور راہزنی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
’یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس نے راہ زنی اور چوری کی بھی پانچ الگ وارتیں کر رکھی تھیں اور وہ اس طرح کی وارداتوں کے گینگ کا رکن بھی بن گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’2011 میں بچے کے ساتھ زیادتی کے جرم میں جیل جا کر ملزم نے ڈکیتی اور چوری کرنے والے گینگ کے ارکان سے تعلقات بنا لیے تھے۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں تین بچوں کے اغوا اور ان کی ہلاکتوں کا معاملہ منظر عام پر آیا تھا جس کے بعد سے پولیس ملزم کو تلاش کر رہی تھی۔
ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا تھا کہ اس کے ساتھ بھی جنسی زیادتی ہوتی رہی ہے اور آخری بار گذشتہ ماہ اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس نے ملزم کے ساتھ زیادتی کرنے والے اس کے تندورچی استاد کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔