دوران سماعت عدالت نے کراچی کا ڈیزائن دوبارہ بنانے کا حکم دے دیا (فوٹو: روئٹرز)
کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور زمینوں پر قبضے کے حوالے سے متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اگر کنٹونمنٹ بورڈ، کلفٹن اور ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف ایکشن لیا تو ساری عمارتیں منہدم کرنا پڑ جائیں گی۔
جمعے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کے دوران پنجاب کالونی، دہلی کالونی اور پی این ٹی میں غیر قانونی تعمیرات گرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ ’یہ نو نو منزلہ عمارتیں کس کی اجازت سے تعمیر ہو رہی ہیں، ان سب کو گرائیں۔‘
چیف جسٹس نے عدالت میں موجود کنٹونمنٹ بورڈ حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ کی حکومت چل رہی ہے کہ جو دل میں آئے ویسے کام کر لیں؟ کلفٹن میں پانچ، پانچ کروڑ کے فلیٹ بک رہے ہیں، آپ نے لوگوں سے پیسے لے لے کر خزانے بھر لیے ہیں۔‘
جس پر کلفٹن بورڈ حکام نے وضاحت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ’رہائشی پلاٹ پر دو منزلہ اور کمرشل پلاٹوں پر نو منزلہ عمارت کی اجازت ہے، ہم نے بہت سی عمارتیں گرائی ہیں۔‘
کمرہ عدالت میں صورتحال اس وقت دلچسپ ہوگئی جب کنٹونمنٹ بورڈ کے ترجمان انگریزی میں عدالت کے سوالات کا جواب دے رہے تھے جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ’آپ انگریزی بول کر ہمارا کچھ نہیں کرسکتے، کیا ہمیں معلوم نہیں حقیقت کیا ہے۔‘
عدالت نے ڈائریکٹر لینڈ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’یہ کوثر میڈیکل اور اس کے برابر میں کیسے بڑی بڑی عمارتیں بن گئیں، آپ کے دفتر کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’سرکاری زمین آپ پر بھروسہ کرکے دی گئیں اور آپ کر کیا رہے ہیں۔ وہاں کنٹونمنٹ تو نہیں رہا اب وہاں تو اور ہی کچھ بن گیا ہے۔
ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے منہ سے ایسے الفاظ نکلیں جو کسی کے لیے نقصان دہ ہوں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی ادارہ ٹھیک نہیں۔‘
جسٹس سجاد علی شاہ نے کا کہنا تھا کہ ’ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈز نے انتہائی اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، یہ جسے چاہتے ہیں اسے زمین دیتے اور جسے چاہیں نہیں دیتے۔ ’کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ اے میں کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں۔‘
سرکلر ریلوے کی بحالی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے شکوہ کیا کہ ریلوے نے چھ ہزارغریب لوگوں کو بے گھر کر دیا، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ’سلمان صاحب، انہیں بیٹھایا کس نے، آپ ووٹ لینے کی نظر سے معاملات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘
دوران سماعت جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ’میں اس شہر میں پیدا ہوا، بتائیں، شہر میں کون سی جگہ خالی چھوڑی ہے؟ پولیس سٹیشن تک کرائے پر لے رکھے ہیں، سب بیچ ڈالا۔‘
جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ملائشیا فارمولہ سنا ہے آپ نے؟ کولالمپور کو کیسے صاف کیا، ذرا اس پر ریسرچ کریں۔
شہری حکومت کام کر رہی ہے، نہ صوبائی نہ وفاقی حکومت۔ کراچی کے لیے پھر کس کو بلائیں، یہ شہر ایک میگا پرابلم سٹی بن چکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وہ ملائشیا فارمولے پر ہی کام کر رہے ہیں، ’پلان کرنے کی ضرورت ہے، تھوڑا سا وقت دے دیں، وفاقی حکومت اور سندھ حکومت آپس میں بات کر سکتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ ’آپ لوگوں کا کوئی وژن نہیں، کیا کرنا ہے کسی کو معلوم نہیں۔‘
ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے عدالت کے روبرو تسلیم کیا کہ جتنے حکومتی ادارے ہیں انہوں نے شہر کو جنگل بنا دیا ہے لہٰذا عدالت ماہرین پر مشتمل اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنا دے، جس کے جواب میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ، ’یہ بتائیں، وہ کمیٹی کرے گی کیا، اینٹی انکروچمنٹ سیل ہے تو سہی۔‘
دوران سماعت عدالت نے کراچی کا ڈیزائن دوبارہ بنانے کا حکم دیتے ہوئے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ اس کام کے لیے سول انجینیئرز، ماہرین اور ٹاون پلانرز سے مدد حاصل کی جائے۔
’کراچی کیسے بہتر ہوگا اس حوالے سے مہم چلائی جائے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کو اس معاملے کی آگہی دی جائے۔ ’بتایا جائے کراچی کو جدید ترین شہر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگلی سماعت کے دوران اس معاملے میں سندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔
عدالتی کارروائی کے بعد میئر کراچی وسیم اختر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے آج ہمارے موقف کی تائید کی، کراچی کا 55 فیصد حصہ کچی آبادی پر مشتمل ہے، غیر قانونی تعمیرات نے کراچی کا نقشہ بگاڑ دیا ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ جن لوگوں نے غیر قانونی تعمیرات کروائیں ان سے پوچھ گچھ کر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ’کراچی کا نیا پلان ضرور تشکیل دیا جائے۔‘