پیر کی دوپہر کراچی کے علاقے رنچھوڑ لین میں زمین بوس ہونے والی چھ منزلہ رہائشی عمارت نے شہر کی قدیم عمارتوں کے ساتھ برسوں سے برتی جانے والی بے اعتنائی کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر اجاگر کردیا ہے۔
کراچی میں عہدِ رفتہ کی یادگار بیشتر عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ زمین بوس ہو رہی ہیں۔ کچھ ایسی عمارتیں بھی ہیں جو اپنے بہترین معیار تعمیر کی وجہ سے خود تو نہیں گر رہیں لیکن کچھ لوگ ان کو گرانے کے درپے ہیں تاکہ وہ ان کی جگہ نئے کمرشل پلازے تعمیر کر سکیں۔
کراچی کی بعض پرانی عمارتیں عظیم تاریخی ورثہ ہیں متعلقہ حکام ان کو گرنے سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات کر رہے ہیں نہ ہی ان کو گرانے والے افراد کے خلاف کارروائی۔
شہر کے کاروباری مرکز صدر، ایم اے جناح روڈ، لیاقت روڈ، بولٹن مارکیٹ، آرام باغ اور اس سے متصل علاقوں میں واقع تاریخی ورثہ شمار کی جانے والی ان عمارتوں میں سے اکثر سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ یہ عمارتیں ہندوؤں، پارسیوں اور یہودیوں کی تعمیر کردہ ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد کچھ املاک محکمہ اوقاف کی زیر نگرانی آگئیں جبکہ بیشتر ابھی تک پگڑی کے نظام پر نہایت معمولی رقم کے عوض کرایہ پر دی گئی ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان عمارتوں کی بحالی کے لیے مناسب دیکھ بھال پالیسی نہ ہونے کے باعث اب بیشتر عمارتیں مخدوش حالت میں ہیں اور ان کے رہائشی دوسری جگہوں پر منتقل ہو رہے ہیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے قائم ہیریٹیج کمیٹی کی رکن ڈاکٹر انیلہ نعیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ’اولڈ سٹی ایریا میں زمین اور جگہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے لوگ پرانی عمارتوں کو بچانے کے بجائے بیچنے کی طرف زیادہ مائل نظر آتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قصور مالکان کا بھی نہیں، حکومت کی جانب سے پرانی عمارتوں کے مالکان اور مکینوں کو نہ تو کوئی سہولت فراہم کی جاتی ہے، نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ قومی ورثے کی دیکھ بھال کریں۔‘
ڈاکٹر انیلہ کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک میں اس حوالے سے قانون سازی موجود ہے جس کے ذریعے تاریخی حیثیت کی حامل عمارتوں کے مالکان کو ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز میں چھوٹ دی جاتی ہے تاکہ وہ عمارت کی دیکھ بھال پر خرچ کر سکیں۔
’’اس کے برعکس ہمارے ملک میں قانون سازی کے نتیجے میں ان عمارتوں میں دیکھ بھال کا کام کروانے کے لیے بھی اجازت لینا پڑتی ہے جس میں کئی ماہ حتیٰ کہ سال بھی لگ جاتے ہیں جس سے تنگ آکر لوگ ان عمارتوں سے جان چھڑانا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔‘
آرکیٹیکٹ ماروی مظہر کراچی کے تاریخی ورثے کو بچانے کے لیے مختلف پراجیکٹس پر کام کر رہی ہیں۔ ان کے ادارے’ پاکستان چوک کمیونٹی سینٹر‘ کے تحت لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا جا رہا ہے اور انہیں شہر کی تاریخ سے روشناس کیا جا رہا ہے۔
ماروی کہتی ہیں کہ ’کراچی میں کسی علاقے کو ہیریٹیج زون ڈکلیئر نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ان علاقوں میں تعمیرات پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں اور شہر کا کاروباری مرکز اور گنجان آباد علاقہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں کمرشل عمارتوں کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے۔
ان تعمیرات کی وجہ سےاولڈ سٹی ایریا میں جگہ کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے لہٰذا لوگ پرانی عمارتوں کو منہدم کر کے ان کی جگہ نئی کثیر منزلہ عمارات تعمیر کرنا زیادہ فائدہ مند سمجھتے ہیں۔‘
سندھ حکومت نے 2010 میں کثیر منزلہ عمارتوں کی تعمیر کے حوالے سے قانون سازی کی تھی جس کے تحت سندھ بھر کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں آبادی کی ضروریات کو بنیاد بنا کر کثیرمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کے لیے اجازت دی جانے لگی۔
اس قانون سازی کے بعد اولڈ سٹی ائیریا میں زمین کی قیمتوں اور وہاں تعمیر ہونے والی عمارتوں کی منزلوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ڈاکٹر انیلہ کہتی ہیں کہ ایسے میں پرانی عمارتوں کے مالکان کو اس بات پر راغب کرنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ ان عمارتوں کو نہ بیچیں۔
حکومت سندھ کی جانب سے کلچر ڈیپارٹمنٹ کے زیرِ انتظام قائم کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پرانی عمارتوں میں کی دیکھ بھال کے حوالے سے این او سی جاری کرے، اس کمیٹی کی رکن اور این ای ڈی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر فریدہ غفور کا کہنا ہے کہ سرکاری نمائندگان کی عدم دلچسپی اور غیر حاضری کے باعث اس کمیٹی کا اجلاس باقاعدگی سے منعقد نہیں ہوتا۔
کراچی کے انویسٹر اور بلڈر مافیا بھی مل کر ان عمارتوں کو منہدم اور اس کی جگہ کمرشل عمارتیں اور پلازے تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر انیلہ کے مطابق ’بلڈرز رفتہ رفتہ ان عمارتوں کو خرید رہے ہیں خاص طور پر وہ عمارتیں جن میں وراثت اور بٹوارے کے مسائل ہوں اور فریق ان عمارتوں کو بیچ کر پیسہ آپس میں تقسیم کرنا چاہیں، تو ایسے میں بلڈرز سب سے اونچی بولی لگا کر سودا پکا کر لیتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ذریعے اس عمارت کو مخدوش قرار دلوایا جاتا ہے تا کہ اسے منہدم کیا جا سکے۔
دوسری طرف سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے اب تک کراچی کے اولڈ سٹی ایئریا میں واقع 288 عمارات کو مخدوش اور رہائش کے لیے خطرناک قرار دیا جا چکا ہے مگر ایسی بیشترعمارتوں میں لوگ اب بھی رہائش پذیر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ان کے کاروبار ہیں وہ یہ علاقہ چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں۔
مکینوں کی جانب سے ان عمارتوں کو خالی نہ کیے جانے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ عمارتیں دہائیوں پہلے پگڑی کے نظام پر الاٹ ہوئی تھیں اور ان میں قائم بیشتر گھروں کا کرایہ آج بھی چند سو یا محض ایک ہزار روپے ہے۔ اس وجہ سے لوگ ان گھروں کو نہیں چھوڑتے کیونکہ اس کے برعکس اسی علاقے میں فلیٹوں کا کرایہ کم از کم 25 سے 30 ہزار ہے۔
یہاں موجود کچھ تعمیراتی شاہکار ایسے بھی ہیں جو اب بھی قائم ہیں۔ وکٹوریہ اینڈ ایلبرٹ میوزیم میں عدالت عظمیٰ کا قیام، ہندو جمخانہ میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس، جناح کورٹس اور میٹھا رام ہاسٹلز میں سندھ رینجرز کے پڑاؤ کی وجہ سے یہ عمارتیں اب بھی بہتر حالت میں موجود ہیں۔