مصری اداکارہ کوکا نے فلم میں عبلہ کا کردار ادا کیا تھا (فوٹو: عرب نیوز)
آج ویلنٹائن ڈے ہے، اسے ایک مسیحی پادری سے منسوب کیا جاتا ہے جس کو محبت کی ترغیب دینے کے جرم میں رومن بادشاہ نے موت کی سزا دی تھی۔ یہ محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے مگر سعودی عرب میں ایک اور پریم کہانی بھی اسی روز محبت کرنے والوں کے دلوں کو گدگداتی ہے، ذہنوں میں مچلتی ہے اور ہونٹوں پر بھی آتی ہے۔ اس کو عرب شاعری کی سب سے مشہور پریم کہانی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
آج ہر طرف خوبصورت پیکنگز میں بند دل کی شکل کے کارڈز اور سرخ پھول دکھائی دے رہے ہیں لیکن آج تک کوئی ایسی پریم کہانی موجود نہیں جس کا انجام ہنسی خوشی ہوا ہو۔
سینٹ ویلنٹائن کو بے تحاشا مارا گیا اور آخرکار اس کا سر کاٹ دیا گیا۔ عنترہ بھی ساری زندگی کوئلوں پر لوٹتے ہوئے سکون کی نیند کا متلاشی رہا جس کا ذکر اپنی شاعری میں بھی کیا ہے۔
عنترہ ابن شداد، جو عنتر نام سے بھی جانے جاتے تھے، ایک سیاہ فام حبشی لونڈی کا بیٹا تھا، جس نے دور اسلام سے قبل نظمیں لکھیں۔ وہ ساری زندگی اس مقصد کے لیے لڑتا رہا کہ خود کو والد کے عرب قبیلے کے برابر ثابت کرے اور اپنی محبوب خاتون کا ہاتھ حاصل کرے اور آخرکار محبت کا صلہ لیے بغیر دنیا سے چلا گیا۔
رومانویت کو وقتی لحاظ سے منانے سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ویلنٹائن اور عنترہ کا حقیقی پیغام یہی ہے کہ زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب ہم ضرور لڑتے ہیں اس کے لیے جس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور اس جنگ کو چھوڑنا، چاہے جتنی بھی مایوسی ہو، خود کو ہار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔
ویلنٹائن کو سنہ 269 میں رومن بادشاہ کے حکم پر سزائے موت دی گئی کیونکہ وہ مسیحی جوڑوں کی شادی کرواتا تھا۔ اس کے تقریباً ڈھائی سو سال بعد عنترہ دنیا میں آیا۔
وہ سنہ 525 کو نجد میں پیدا ہوئے، وہ بنو ابس کے معروف جنگجو شداد الابسی اور زبیبہ جو کہ ایتھوپین لونڈی تھیں، کا بیٹا تھا۔
ان کا رنگ بھی ماں کی طرح کالا تھا۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ ان کے والد بھی ان سے غلاموں کا سا سلوک کرتے تھے، جس کا انہیں لڑکپن میں بھی خاصا احساس ہوا اس لیے اس نے اپنے آپ کو منوانے کے لیے جنگی داؤ پیچ سیکھے۔
کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود یہ ایک لافانی کہانی ہے جسے سعودی عرب کے ہائی سکول کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ کہانی محض ایک پریم کہانی نہیں ہے۔
ابن شداد کو ان سات مشہور نظموں کا خالق کہا جاتا ہے جو آٹھویں صدی میں المعلقات (لٹکی ہوئی نظمیں) کے نام سے مرتب کی گئیں۔ ان کو سوتی کپڑے پر سنہرے حروف سے لکھ کر مکہ میں کعبہ کی دیواروں کے ساتھ آویزاں کیا گیا۔
اپنی شاعری میں عنترہ کبھی پیار میں ڈوبے عاشق نظر آتے ہیں اور کبھی سخت گیر جنگجو، ایک جگہ لکھتے ہیں:
’تم نے میرے دل پر قبضہ کر لیا ہے جو میرے پیاروں کے لیے ایک قابل احترام مقام ہے، سو کبھی سوائے اس کے کچھ نہ سوچنا کہ تم میرے محبوب ہو‘
اسی طرح ایک جگہ پر لکھتے ہیں:
’میں نے اسے اپنے بھالے سے کریدا اور پھر سٹیل سے بنی اپنی انڈین تلوار کی دھار پر رکھ لیا‘
عنترہ سے منسوب کی جانے والی نظموں میں دل کے معاملات سے زیادہ جنگوں پر توجہ مرکوز دکھائی دیتی ہے۔
2018 میں لائبیری آف عریبک لیٹریچر نے نیو یارک یونیورسٹی ابوظبی انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے ابن شداد کی 40 سے زائد نظموں کا انگریزی ترجمہ کروایا، جن میں صرف چند جنگی نظموں میں عبلہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایڈیٹر کے نوٹ میں ’عنتر اور عبلہ‘ کے عنوان کے ساتھ لکھا گیا کہ ’محبت کی ایک ایسی داستان جس نے صدیوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا، قطع نظر خون سے متعلق نظموں کے انتخاب کے، جہاں ابن شداد ایک جنگجو ہے نا کہ عاشق، خود کو ایک غیرمقامی تسلیم کروانے جانے کے لیے کوشاں، لیکن ایک سیاہ فام جنگجو شاعر جو بے چین ہے، نہ ماننے والا ہے۔ اس کی شاعری اپنے پیاروں کے لیے قابل فخر اور وفاداری سے عبارت ہے۔‘
خطرناک ارادوں کے ساتھ تلوار، بھالے اور تیر چلانے والا جو اپنے لوگوں کے مخالفین کے لیے خونی راستہ اپناتا ہے۔
میں موت ہوں
بہت سے دشمنوں کو مارا، کاٹا
ان کے سینے
سرخ دریا میں رنگے گئے
ان کی غیر دفن شدہ لاشیں
شہ رگوں میں، نیزوں کے سوراخ
ایک کھلے میدان میں
سخت گرفت کے مارے ہوئے
ان کے اعضا کو
ٹکڑے ٹکڑے کر دیا بھیڑیوں نے
جب میں قریب ہی تھا
ان الفاظ میں کہیں بھی رومانویت نہیں ہے۔
آج کے محبت کرنے والے جو عنتر اور عبلہ کی کہانی میں دلچسپی رکھتے ہیں، کو بتاتے ہیں کہ گیارہویں اور بارہویں صدی میں ابن شداد ایک جنگجو سے ایک عاشق میں تبدیل ہوا۔
شاعری کے اسی انتخاب میں آٹھ نظمیں ’رومانس آف عنتر‘ کے نام سے شامل ہیں۔ جنہوں نے عنتر کی موت کے لمبے عرصے بعد اس کے نرم رخ کو بھی دکھایا۔
1868 میں رومانویت پسند روسی موسیقار نیکولائے رمسکی کورسیکوف نے ’عنتر‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ اٹھارہویں صدی کے آخر تک اس کے تراجم امریکہ اور یورپ میں پھیلے۔ ایک امریکی ناقد نے 1896 میں لکھا حقیقی عرب ہیروپسندی کا اصل رومانس آزاد اظہار تھا جو آج بھی مشرقی شہروں میں ہے۔
’تنگ نظر لوگ کبھی اس صحرا کے سیاہ بیٹے کی بہادری کو تسلیم نہیں کریں گے جو اپنی ذات اپنے لوگوں سے محبت کے حوالے سے کئی خوبیوں کا مجموعہ تھا، جسے فراخ دلی اور بہادری کے ساتھ ساتھ شاعرانہ وصف بھی عطا ہوا تھا۔‘
ویلنٹائن ڈے ہمارے لیے کیا ہے، اس حوالے سے آخری الفاظ ہم اسی پر چھوڑ دیتے ہیں۔
آقا کی بیٹی، سونا میرے لیے منع ہے
میں کوئلوں کے اس بستر پر
کیسے سو سکتا ہوں
میں تب تک روؤں گا
جب تک پرندے نہیں سن لیتے
جب تک فاختہ
میرا نوحہ نہیں گنگناتی
میں ہر وہ جگہ چوموں گا
جہاں تم خیمہ زن رہیں
شاید آنسوؤں سے بھیگی ریت اس آگ کو
ٹھنڈا کر دے جو مجھے کھائے جا رہی ہے۔
اگر آپ ان الفاظ کو اپنے ویلنٹائن ڈے کارڈ پر لکھیں تو یقیناً آپ غلط نہیں ہوں گے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں