مریضوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے قواعد جاری کیے گئے( فوٹو ، سوشل میڈی)
حقوق انسانی کمیشن کا کہنا ہے کہ کوئی ہسپتال یا طبی مرکز فیس کی عدم ادائیگی کی صورت میں نومولود یا نعش کواپنی تحویل میں نہیں رکھے گا۔ کمیشن کی جانب سے ہسپتالوں اور طبی مراکز کے لیے مریضوں کے حقوق کے حوالے سے رہنما اصول متعین کیے ہیں۔
کمیشن کے ٹوئٹراکاؤنٹ پر جاری بیان کے حوالے سے مقامی ویب نیوز’اخبار 24‘ کا کہنا ہے کہ مملکت میں حقوق انسان کمیشن مریضوں کے حقوق کے تحفظ اور بہتر سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلیے ہسپتالوں اورطبی مراکز کے لیے 11 نکاتی ضوابط مقرر کیے ہیں جن پر عمل کرنا تمام طبی اداروں پر لازمی ہے۔
مقررہ ضوابط کے مطابق طبی مراکز کا فرض ہے کہ فراہم کی جانے والی خدمات کی فیس متعین کریں جن کے بارے میں مریضوں کو علم ہونا لازمی ہے، وہ ادارے جو مکمل طور پر ڈیجیٹل انداز میں کام کرتے ہیں اپنے مریضوں کوہسپتال کے متعلقہ پرچے پر ڈاکٹری نسخہ تحریر کر کے دیں۔
مریض کا حق ہے کہ اسے میڈیکل رپورٹ بلا معاوضہ فراہم کی جائے، میڈیکل رپورٹ کے لیے کسی صورت میں فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
علاج شروع کرنے سے قبل مریض یا ان کے ساتھ آنے والوں کو علاج پر آنے والے ممکنہ اخراجات کا بل فراہم کیا جائے جو عربی میں ہونا چاہیے۔
ہسپتال یا طبی مرکز کو یہ حق نہیں کہ زیرعلاج شخص کی موت کے بعد فیس کی عدم وصولی کی صورت میں نعش کواپنی تحویل میں رکھیں۔
بچے کی ولادت کے بعد اخراجات کی عدم ادائیگی کی صورت میں بھی نومولود کو ہسپتال انتظامیہ اپنی تحویل میں رکھنے کی قطعی طور پر مجاز نہیں ہوگی۔
ہسپتال انتظامیہ یا طبی مراکز کسی بھی مریض کومخصوص فارمیسی سے نہ تو دوائی خریدنے کا پابند بنا سکتے ہیں اور نہ ہی دیگر طبی خدمات کے حصول کے لیے مخصوص اداروں کے بارے میں مریض کو مجبور کیاجاسکتا ہے، مریض کی مرضی پر محنصر ہے کہ وہ جہاں سے چاہے دوائی خریدے یا دیگر طبی خدمات حاصل کرے۔
مریض کو مرض کی تشخیص کے بارے میں باعلم رکھنے کے علاوہ طریقہ علاج کےبارے میں وضاحت سے بتایاجائے، مریض کو علاج کے دوران ہونے والے سائیڈ افیکٹس سے بھی باخبر کیاجانا لازم ہے۔
مریض کی فوٹو یا وڈیو اسکی مرضی کے بغیر نہ بنائی جائے، تصویر یا وڈیو صرف علمی مقاصد کے لیے ہی ہونا چاہئے۔
مریض کے ابتدائی طبی معائنہ کے بعد فالو اپ کی مدت 14 دن ہونا چاہئے یعنی دوہفتے کے اندر دوبارہ چیک اپ پر کوئی فیس نہیں لی جائے گی۔
طبی اداروں پر لازم ہے کہ مریض کو مکمل علاج معالجے کی سہولت مہیا کی جائے جب تک اس کی طبعیت بہتر نہ ہوجائے، مدت کا تعین تخمینی ہو گا جو ڈاکٹر مقرر کر سکتا ہے۔
یاد رہے ماضی میں ایسے متعددواقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں علاج کے اخراجات کی عدم آدائیگی پر ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے لواحقین کو نعش حوالے نہیں کی گئی جس کی وجہ سے لواحقین کونہ صرف شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ نعش کو سردخانے میں رکھے جانے کا یومیہ بل بھی بڑھتا گیا۔
علاوہ ازیں ولادت کے کیس میں بھی ایسے واقعات سامنے آئے تھے کہ ولادت کے بعد اسپتال انتظامیہ کی جانب سے نومولود کو والدین کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اس ضمن میں ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہوتا تھا کہ اخراجات کس طرح حاصل کیے جائیں۔