Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چین سے 10 روز میں تجارتی سرگرمیاں بحال ہو جائیں گی‘

کورونا کے باعث پاکستان میں چین کے سامان کی ترسیل متاثر ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس پر قابو پانے میں تاخیر کے باعث دنیا بھر کی چین کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہونے کی حیثیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
پاکستان میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیوں کی بیشتر مصنوعات بالخصوص ڈیوائسز چین میں تیار ہو کر پاکستان آتی ہیں۔ اب ان کمپنیوں کے سروسز مراکز پر ان اشیا کی قلت دکھائی دیتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اسی قلت کے باعث کمپنیوں نے کئی ایک مراعاتی پیکجز بھی ختم کر دیے ہیں۔
ایک شہری جمال عبداللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے آج ایک ایسے ہی سروس سینٹر کا رخ کیا اور انٹرنیٹ ڈیوائس خریدنا چاہی۔ مجھے بتایا گیا کہ چین میں کورونا وائرس کے باعث سامان کی ڈلیوری متاثر ہوئی ہے لہٰذا ڈیوائسز موجود نہیں ہیں اور اگر کچھ ہیں بھی تو وہ کسی پیکج کے تحت مفت یا رعایتی نرخوں پر دستیاب نہیں ہیں۔‘

 

صرف موبائل کمپنیاں ہی نہیں بلکہ چین سے آنے والی متعدد اشیا کی پاکستانی مارکیٹ میں یا تو قلت پیدا ہو گئی ہے یا پھر اس کا خدشہ ہے جس کے باعث سرکاری اور نجی سطح پر اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔
وزارت تجارت کی ترجمان عائشہ حمیرا موریانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کورونا وائرس کے باعث چین سے تجارتی سامان کی سپلائی کا سلسلہ متاثر ہونے کے خدشے کے باعث وزارت نے ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس میں وزارت کے علاوہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور نجی شعبے کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ چین میں پاکستان کے تجارتی قونصلر بھی ویڈیو لنک پر موجود تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’خام مال کی ترسیل میں تاخیر سے مقامی پیداوار اور درآمدات کے متاثر ہونے کے باعث متبادل ذرائع اور روٹس پر بھی غور کیا گیا۔‘
’پاکستانی کمرشل اتاشی نے اجلاس کو بتایا کہ ہوبائے صوبے کے علاوہ باقی مقامات سے اگلے 10 روز میں معمول کی تجارتی سرگرمیاں بحال ہو جائیں گی۔‘

ٹیلی کام کمپنیوں کے دفاتر میں چینی ڈیوائسز کی قلت پیدا ہو گئی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

ترجمان کے مطابق ’ملک بھر میں چین سے درآمد ہونے والی اشیا کا چھ سے آٹھ ہفتے تک سٹاک ابھی موجود ہے۔ اس کے باوجود صورت حال کے تناظر میں ہنگامی اقدامات کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔‘
اردو نیوز نے چین سے مختلف اشیا کے درآمد کنندگان سے بھی رابطہ کیا اور ان کے کاروبار  اور تجارت پر کورونا وائرس کے اثرات سے متعلق استفسار کیا۔
چین سے فانوس، لائٹس اور دیگر الیکٹرانکس اشیا درآمد کرنے والے راولپنڈی کے تاجر شفقت محمود نے بتایا کہ ’ہمارا ہول سیل کا کاروبار ہے۔ چین میں چھٹیوں سے پہلے دو ماہ کا سٹاک منگوا لیا تھا۔ کورونا کے باعث ہول سیل کا کام روک دیا ہے اور سٹاک میں موجود سامان کو پرچون میں فروخت کر رہے ہیں۔‘

تاجروں کے مطابق ان کے پاس صرف دو ماہ کے سامان کا سٹاک رہ گیا ہے (فوٹو: روئٹرز)

جب ان سے پوچھا گیا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران آپ کو کتنا مالی نقصان ہوا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’نقصان تو نہیں ہوا تاہم ہول سیل کا کاروبار روک دینے سے منافع کم ہوا ہے۔‘
’عموماً ہم تین سے چار ماہ کا سٹاک اپنے پاس رکھتے ہیں جو اب صرف دو ماہ کا رہ گیا ہے۔ اگر دو ماہ تک ترسیل بحال نہ ہوئی تو پھر کاروبار خطرے میں پڑ جائے گا۔‘
چین سے کھلونے اور گھریلو استعمال کی اشیا درآمد کرنے والے چوہدری آصف محمود نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سپلائی تو قریباً بحال ہونے والی ہے۔ ہم نے اپنے آرڈرز بھی دے دیے ہیں لیکن ایک مسئلہ ہے کہ ہم کوئی نئی چیز نہیں منگوا سکیں گے۔ پرانی فہرست میں شامل اشیا ہی دوبارہ منگوائی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کورونا کے باعث ہم خود چین نہیں جا سکتے تو یقیناً معیار بھی متاثر ہو گا۔ ہماری مارکیٹ میں جب تک نئی کوئی چیز نہ ہو تو کاروبار میں منافع کی شرح میں بھی اضافہ نہیں ہوتا۔‘

شیئر: