تحقیقی مقالے کے مطابق 87 فیصد ٹریفک وارڈنز ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
یہ خبر آپ کے لیے نئی نہیں ہوگی کہ ٹریفک وارڈن نے شہری پر تشدد کیا یا اس کے الٹ بھی ہوتا ہے کہ شہریوں نے ٹریفک وارڈن سے جھگڑا کیا۔
چند روز قبل لاہور کے علاقے مسلم ٹاؤن موڑ پر پی ایس ایل میچ کے دوران ایک ٹریفک وارڈن کا اسی طرح کا جھگڑا ایک صحافی سے ہوا۔ ایک مقامی ٹی وی چینل کے صحافی تابش شہزاد اپنے گھر جا رہے تھے تو سڑک بلاک ہونے کی وجہ سے ٹریفک جام تھا۔
تابش نے اردو نیوز کو بتایا ’میرے فلیٹ کے بالکل نیچے سروس روڈ پر بھی ٹریفک بند تھی میں نے ٹریفک وارڈن کو بتایا کہ مجھے کہیں اور نہیں جانا اوپر اپنے فلیٹ پر جانا ہے لیکن وہ نہیں مانا اسی دوران اس سے بحث زیادہ ہو گئی تو وہ گالی گلوچ پر آ گیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑا وائرلیس سیٹ میرے سر پر دے مارا اور پھر فرار ہو گیا۔‘
تابش نے اس واقعہ کے بعد پولیس ہیلپ لائن پر کال کر دی اور مسلم ٹاؤن تھانے میں اس ٹریفک وارڈن کے خلاف مقدمے کے اندراج کی درخواست بھی دے دی ہے۔
سٹی ٹریفک پولیس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اس واقعے کی مکمل انکوائری کی جا رہی ہے اور کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد اس پر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
ایک ماہ قبل لاہور میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس میں لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کو بھی مال روڈ پر ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
سٹی ٹریفک پولیس آفس کے مطابق لاہور میں پچھلے ایک سال میں 40 ایسے واقعات سامنے آئے جس میں شہریوں اور ٹریفک وارڈنز کے درمیان تلخ کلامی یا جھگڑے کو رپورٹ کیا گیا۔
اکتوبر 2019 میں اچھرہ کے علاقے میں شہری نے گولی چلا کر علی نامی ٹریفک وارڈن کو زخمی کر دیا۔ اسی طرح 2018 میں راولپنڈی میں پارکنگ کے جھگڑے پر شاہد سرور نامی ٹریفک وارڈن کو فائرنگ کرکے مار دیا گیا۔
پہلے سلام پھر کلام؟
لاہور میں تعینات سپرینٹنڈنٹ ٹریفک پولیس محمود الحسن گیلانی سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ دوطرفہ ہے ’پہلی بات تو یہ ہے کہ عوام میں ٹریفک قوانین کی آگاہی میں کمی ہے۔ جس عمل سے بھی انہیں روکا جاتا ہے وہ اس پر بحث شروع کر دیتے ہیں۔ اور بات آگے نکل جاتی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ ٹریفک وارڈن کو بھی انسان سمجھیں وہ ہر طرح کے موسم میں اپنی ڈیوٹی دینے کے لئے موجود ہوتا ہے۔‘
محمود الحسن نے بتایا کہ اس بات کا ہر گز مطلب نہیں کہ ٹریفک وارڈنز کو کوئی کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیں۔ ’محکمے میں اس حوالے سے حکمت عملی بہت واضح ہے اور کھلا پیغام ہے کہ عوام سے تحمل سے پیش آیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کی مکمل انکوائری کی جاتی ہے اور کافی مرتبہ وارڈن معطل بھی ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر سیکٹر میں روزانہ کی بنیاد پر کاؤنسلنگ کی جاتی ہے۔ چیف ٹریفک آفیسر خود دربار لگاتے ہیں اور ایک سبق دیا جاتا ہے کہ پہلے سلام پھر کلام اور اس پر عمل درآمد کو خفیہ طریقے سے چیک بھی کیا جاتا ہے۔
محمود الحسن گیلانی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسانی رویوں کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک ٹریفک وارڈن مسلسل آٹھ گھنٹے ایک جگہ ڈیوٹی دیتا ہے اور اس کا ڈھیر سارا وقت لوگوں سے بحث تکرار میں گزرتا ہے جس سے اس کی پرفارمنس پر بہر حال اثر پڑتا ہے۔
ایک ٹریفک وارڈن فاخر (فرضی نام) نے بتایا کہ ’میں گذشتہ 14 سال سے ٹریفک وارڈن ہوں میری خوش قسمتی ہے کہ کبھی کسی ایسے جھگڑے میں نہیں آیا جس کا سامنا اکثر وارڈنز کو کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جھگڑے سے بچنا بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم نے تو وہ کام کرنا ہوتا ہے جو قوانین بتاتے ہیں لیکن لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ اس چوک میں جہاں میں کھڑا ہوں ون وے کی خلاف ورزی کرتا کوئی آئے گا جب اس کو روکتا ہوں تو اس کی منطق یہ ہوتی ہے کہ وہ سامنے والی دکان سے آرہا ہے اور ساتھ والی گلی میں جانا ہے۔ بھئی یہ خلاف قانون ہے آپ یو ٹرن سے آئیں اور سیدھے طریقے سے اپنی گلی میں جائیں۔ لیکن نہیں وہ نہیں مانے گا۔ لوگ قوانین کو سمجھتے ہی نہیں ان کو لگتا ہے کہ قانون غلط ہے وہ ٹھیک ہیں۔‘
فاخر نے بتایا کہ وہ آٹھ گھنٹے مسلسل کھڑے رہنے، آلودگی اور شور کو سہتے ہوئے جب یہ سنتے ہیں کہ وہ کسی کو قانون کا بتا کر اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں تو انہیں دکھ ہوتا ہے۔ ’لوگ صرف جھگڑتے نہیں بلکہ منت سماجت پر آ جاتے ہیں جو کہ ایک دوسری طرح کی صورت حال ہے لیکن وہ قانون کی خلاف ورزی سے باز نہیں آنا چاہتے۔ اور یہ مجموعی صورت حال ہے۔‘
ٹریفک وارڈن کی صحت پر سنجیدہ سوال
سٹی ٹریفک پولیس کے ریکارڈ کے مطابق لاہور کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے 32 سو وارڈنز ہیں جبکہ 48 سو گاڑیوں پرایک وارڈن دستیاب ہے جو اس کام کو انجام دینے کے لیے ناکافی ہے۔
امریکی ادارے نیشنل سینٹر فار بائیو ٹیکنالوجی انفارمیشن کی ویب سائٹ پر شائع پاکستانی ٹریفک وارڈنز کی دماغی صحت سے متعلق تحقیقاتی مقالے کے مطابق 46 فیصد پاکستانی ٹریفک وارڈنز نیند کی کمی کا شکار ہیں۔ جبکہ 74 فیصد میں سر درد کا رہنا معمول ہے۔
اسی تحقیقی مقالے کے مطابق 87 فیصد ٹریفک وارڈنز ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں۔ یہ تحقیقاتی مقالہ نفسیات کے چار پاکستانی طالب علموں نے لکھا ہے جسے امریکی ادارے نے قبول کیا۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں کام کرنے والے ڈاکٹر سعد آصف کا کہنا ہے کہ ٹریفک وارڈنز کی صحت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ’آپ کی جسمانی صحت اور دماغی صحت کا آپس میں براہ راست تعلق ہے۔ یہ جتنے بھی واقعات آپ کو دکھائی دیتے ہیں یہ اصل مسئلہ نہیں ہے اصل وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ رویے ترتیب پاتے ہیں۔
ٹریفک وارڈنز کی صحت کے بارے میں چار سے پانچ اعلیٰ کوالٹی کی تحقیقات ہو چکی ہیں ایک تحقیق کے مطابق تو ٹریفک وارڈنز کے ڈی این اے تک متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اس کے بڑے فیکٹر آلودگی، شور، اور کام کے اوقات کی زیادتی ہے۔‘ ڈاکٹر سعد کا کہنا تھا آپ محض کاؤنسلنگ سے ان مسائل کا حل نہیں کر سکتے آپ کو نظام کو تبدیل کرنا ہو گا اور زیادہ سے زیادہ خودکار نظام متعارف کروانا ہو گا تاکہ مسلسل کھڑے رہ کر کام کرنے والے ٹریفک وارڈنز پر بوجھ کم کیا جا سکے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں