انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات کے دو ہفتے سے زیادہ عرصے کے بعد اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ یہ فسادات ’منصوبہ بندی سے سازش‘ کے تحت ہوا ورنہ اتنے بڑے پیمانے پر تشدد نہیں ہو سکتا تھا۔
خیال رہے کہ انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں 23 فروری کو شروع ہونے والے فسادات پر 26 فروری کو قابو پایا جا سکا اور اس میں 50 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔ ان ہنگاموں میں املاک کے نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ ہزاروں مسلمان بے گھر ہو گئے اور کیمپوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔
مزید پڑھیں
-
دہلی میں تشدد کی ذمہ دار مرکزی حکومت: سونیا گاندھیNode ID: 461471
-
’ہنگاموں کے لیے غُنڈے اُترپردیش سے بلوائے گئے‘Node ID: 461711
-
انڈیا میں ’غداروں کو گولی مارو‘ کی گونجNode ID: 462376
بدھ کے روز وزیر داخلہ نے کوئی نئی بات نہیں کہی کیونکہ انڈین میڈیا کی مختلف رپورٹس میں پہلے ہی اس جانب اشارہ کیا جا چکا ہے اور بہت سے رہنماؤں نے اسی حوالے سے وزیر داخلہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے کیونکہ پولیس دہلی کی ریاستی حکومت کے بجائے مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ کے ماتحت ہے۔
حزب اختلاف نے پولیس کے فوری عمل نہ کرنے اور بعض جگہ بھیڑ کا حصہ ہونے پر بھی امیت شاہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
امیت شاہ نے گذشتہ روز پارلیمان میں دہلی کے فسادات کے حوالے سے ہونے والی بحث کے اختتام پر پولیس کو ایک طرح سے نہ صرف کلین چِٹ دی بلکہ ان 36 گھنٹوں میں فساد پر قابو پانے پر ان کی پیٹھ بھی تھپتھپائی۔
انھوں نے حزب اختلاف کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے تشدد کرنے والوں کا ساتھ دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پولیس نے پانچ ہزار سے زیادہ آنسو گیس کے گولے اور 400 گولیاں فائر کیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس میں اُترپردیش سے سینکڑوں افراد شامل ہوئے‘ اور یہ بھی بتایا کہ ’قریباً 1100 افراد کی چہرہ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے ذریعے شناخت کی گئی ہے۔‘
اس سے قبل مجلسِ اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے پارلیمان میں کہا کہ ’دہلی فسادات میں ’ہندوتوا منافرت کی سونامی‘ دیکھی گئی۔ انھوں نے غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تاکہ فسادات کرنے والوں کی نشاندہی کی جا سکے۔
انھوں نے ہندوؤں پر زور دے کر کہا کہ ’ملک کی روح کو بچائیں۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’قریباً 1100 مسلمانوں کو غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔‘
امیت شاہ نے یہ بھی کہا کہ انہیں ہندو مسلم فسادات کہنا مذاق ہوگا کیونکہ یہ ایک ’پہلے سے منصوبہ بند نسل کشی‘ ہے۔
وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ ’مسجدوں کو چُن چُن کر نشانہ بنایا گیا لیکن ایک بھی مندر کو نقصان نہیں پہنچا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم آئین کی حفاظت کرتے ہوئے مر جائیں گے۔ اور ہم اس قتل عام کو جاری نہیں رہنے دیں گے۔‘
-
انڈین خبروں کے لیے ’’اردو نیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں