تحقیق کے مطابق نئے کورونا وائرس کووڈ 19 کے جراثیم تانبے پر چار گھنٹے اور کارڈ بورڈ پر 24 گھنٹوں تک موجود رہتے ہیں، جبکہ پلاسٹک اور سٹین لیس سٹیل پر دو سے تین دنوں کے لیے برقرار رہتے ہیں۔
سائنسدانوں پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم کے مطابق وائرس کے ذرے فضا میں موجود رہتے ہیں جن کی شناخت تین گھنٹوں کے لیے ممکن ہوتی ہے۔ تاہم چند سائنسدانوں نے تحقیق پر تنقید بھی کی ہے۔ ناقدین کے خیال میں کورونا وائرس سانس یا چھینکنے سے خارج ہونے والے ذرات سے پھیلتا ہے جو کچھ سیکنڈ کے لیے ہی فضا میں رہتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق کووڈ 19 کا باعث بننے والا وائرس انسانی جسم کے باہر بھی اتنا ہی مؤثر رہتا ہے جتنا کہ سارس کو جنم دینے والا وائرس تھا۔
تحقیقاتی ٹیم نے سارس وائرس پر بھی ٹیسٹ کیے تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سارس اور کورونا وائرس میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
سارس کے جراثیم فضا میں موجود رہنے کی وجہ سے 2003 میں ہانگ کانگ کے ایک اپارٹمنٹ کمپلکس میں سینکڑوں افراد متاثر ہو گئے تھے۔
ابتدائی طور پر نئی تحقیق نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی تھی جو بعد میں بیماریوں پر قابو پانے والے امریکی ادارے نے بھی شائع کی تھی۔
یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ اس نئی تحقیق کے علاوہ بھی ایسے شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ 19 کے جراثیم فضا میں تین گھنٹوں کے لیے موجود رہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک چینی تحقیق میں بھی کورونا وائرس کے جراثیم فضا میں تین گھنٹوں کے لیے موجود رہنے کے شواہد ملے ہیں۔
چینی تحقیق کے مطابق، انسانی فضلے میں کورونا وائرس کے جراثیم ہونے کے باعث، چین کے صوبہ ووہان کے ہسپتال میں مریضوں کے باتھ روم میں بھی وائرس کے جراثیم پائے گئے تھے۔
سارس اور کورونا وائرس کی خصوصیات میں مماثلت کے باوجود سائنس یہ بتانے سے قاصر ہے کہ سارس کے مقابلے میں کورونا کیوں زیادہ ہلاکتوں کا باعث بنا۔
کورونا وائرس سے دو لاکھ کے قریب متاثر اور آٹھ ہزار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ سارس سے 8 ہزار متاثر اور 800 ہلاک ہوئے تھے۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے ریسرچ پیپر میں لکھا ہے کہ دونوں وائرس کی وبائی خصوصیات میں فرق کے مزید عوامل ہیں۔
تاہم نئی تحقیق ماہرین صحت کی بتائی گئی حفاظتی تدابیر کی مزید تصدیق کرتی ہے، جن میں ہاتھ دھونا، فاصلہ رکھنا، چہرے پر ہاتھ نہ لگانا، کھانستے اور چھینکتے وقت منہ ڈھانپنا اور اشیا کو صاف رکھنا شامل ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں