Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان خوشی منانے آئے تھے لیکن کورونا نے تقسیم کر دیا‘

بیشتر افراد کی پریشانی کی بڑی وجہ اپنے اہل خانہ سے دوری ہے (فوٹو:اے ایف پی)
کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر سے پروازیں منسوخ ہونے کے بعد یورپ میں مقیم وہ خاندان جو پاکستان آئے ہوئے تھے تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ 
بیشتر افراد کی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ موجودہ حالات میں اپنے بیوی بچوں، والدین اور اہل خانہ سے دوری ہے۔ 
اردو نیوز نے ایسے ہی کچھ افراد سے بات کر کے ان کے جذبات جاننے کی کوشش کی ہے۔
بیشتر افراد کے لیے سب سے بڑی پریشانی موجودہ حالات میں اپنے بیوی بچوں، والدین اور اہل خانہ سے دوری ہے۔ 
اختر علی کا تعلق ضلع جہلم سے ہے۔ وہ بیوی بچوں سمیت روزگار کے سلسلے میں گذشتہ کئی سال سے اٹلی میں مقیم ہیں۔ فروری کے آخر میں وہ اپنے بیٹے کی شادی کے سلسلہ میں پاکستان آئے۔
اس وقت تک کورونا کی وبا کا زور چین میں ہی تھا اور کچھ ممالک میں ایک آدھ کیس ہی سامنے آیا تھا۔

اختر علی کا کہنا ہے جب پتا چلا کہ پروازیں منسوخ ہو گئی ہیں تو ہماری امیدوں پر پانی پھر گیا (فوٹو:اے ایف پی)

انہوں نے اپنے تین بچوں کو تعلیمی نقصان سے بچانے کے لیے اپنے رشتہ دار کے گھر چھوڑا اور اپنی اہلیہ اور باقی تین بچوں کو لے کر پاکستان آگئے۔ 
ان کا ارادہ تھا کہ شادی سے فارغ ہونے کے بعد وہ واپس جلد اٹلی روانہ ہو جائیں گے۔ 24 مارچ کو ان کی ٹکٹیں بھی کنفرم تھیں لیکن تب تک کورونا وائرس وبائی شکل اختیار کر چکا تھا۔
انہوں نے 15 مارچ سے 22 مارچ تک ہر ممکن کوشش کی کہ ٹکٹ تبدیل ہو جائے اور وہ جلد سے جلد اٹلی اپنے بچوں کے پاس پہنچ جائیں لیکن پہلے ٹکٹ نہ مل سکا اور پھر پروازیں ہی بند کر دی گئیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں اختر علی نے بتایا کہ ’بچے کبھی ایک دوسرے سے دور نہیں ہوئے۔ جو ہمارے ساتھ ہیں وہ بھی پریشان ہیں اور جو اٹلی میں ہیں وہ بھی کسی کے گھر میں قید ہی سمجھیں۔ کام سے تو ہو سکتا ہے چھٹیاں ہو جائیں لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات التوا کا شکار ہوگئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سنا تھا کہ پی آئی اے برطانیہ کے لیے خصوصی پروازیں چلانے لگی ہے۔ امید ہو گئی تھی کہ شاید ہماری بھی سنی جائے گی۔ اگلے ہی دن امیدوں پر پانی پھر گیا جب پتا چلا کہ پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔‘

طالب حسین نے اپریل میں سپین واپس جانا تھا لیکن ان کی ٹکٹ منسوخ ہو گئی (فوٹو:اے ایف پی)

اختر علی کی اہلیہ نوشین اختر ان سے ہر وقت کورونا سے متعلق اعداد و شمار کا پوچھتی ہیں اور اٹلی میں بڑھتے ہوئے مریضوں اور اموات کی تعداد انہیں پریشان کرتی رہتی ہے۔ 
نوشین اختر نے کہا ’آئے تو ہم خوشی منانے تھے۔ اللہ نے خوشی دکھائی بھی لیکن کورونا کی وبا نے ہمیں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے بچے وہاں منتظر ہیں۔‘
سپین میں رہنے والے پاکستانی طالب حسین اپنے والدین سے ملنے کی غرض سے پاکستان آئے تھے۔ اگرچہ انہوں نے اپریل میں واپس جانا تھا لیکن اس سے قبل ہی ائیرلائن کی طرف سے ان کی ٹکٹ منسوخ کر دی گئی ہے۔ 
طالب حسین نے بتایا کہ ’میری بیوی کا تعلق سپین سے ہے اور وہ اس وقت حاملہ ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ کچھ دن ماں باپ کے ساتھ گزار کر واپس چلا جاؤں گا۔ سپین میں کورونا کی وبا زور پکڑ چکی ہے ایسے میں میری بیوی کو میری ضرورت ہے۔ خواہش ہے کہ حکومت صورت حال کو دیکھ کر اٹلی سپین کے لیے کوئی خصوصی پرواز چلائے۔‘
انور علی کا تعلق ضلع گجرات کے شہر لالہ موسیٰ سے ہے۔ وہ برطانیہ میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے والد بیمار ہیں۔ وہ اپنے والد کی عیادت اور خاندان کے دیگر امور کی دیکھ بھال کے لیے پاکستان آنا چاہتے تھے۔ 25 مارچ کو پاکستان پہنچنا تھا لیکن پرواز منسوخ ہونے کے باعث وہ پاکستان نہیں پہنچ سکے۔

پی آئی اے کا کہنا ہے کہ حالات میں بہتری سے ہی آپریشن بحال ہوگا (فوٹو:سوشل میڈیا)

15،14 اور 16 مارچ کو ضلع گجرات کے گاؤں نورجمال میں جشن بہاراں کے سلسلے میں ’کُل پاکستان مقابلہ نیزہ بازی‘ کا انعقاد ہونا تھا جس میں شرکت کے لیے اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے درجنوں نوجوان یورپ بالخصوص برطانیہ سے آئے تھے۔
حکومت کی جانب سے اجتماعات پر پابندی کے باعث نیزہ بازی کے مقابلے بھی منسوخ ہوئے اور پروازیں بند ہونے کے باعث یہ نوجوان واپس بھی نہیں جا پا رہے۔ 
ان نوجوانوں میں سے بیشتر کے اہل خانہ اور بچے یورپ میں ہی مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عام حالات میں رکتے تو شاید صرف کام کا حرج ہوتا لیکن اب گھر والوں کی بھی پریشانی ہے۔‘
دوسری جانب پی آئی اے کا موقف ہے کہ ایئرلائن اور حکومتیں اس مہلک وبا کے تناظر میں اپنی حکمت عملی میں تبدیلیاں لا رہی ہیں۔ پی آئی اے کے لیے  مسافروں اور عملے کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔ حالات میں بہتری ہی معمول کے آپریشن کی بحالی کا باعث بنے گی۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: