عرب فنکار کورونا کے بحران پر کیسا ردعمل دے رہے ہیں؟
عرب فنکار کورونا کے بحران پر کیسا ردعمل دے رہے ہیں؟
13 اپریل ، 2020
کویت سے عمل العجمی نے عورت کا منہ نقاب سے اور مرد کا ماسک سے ڈھانپا ہوا بنایا ہے
کورونا وائرس کی تباہ کاریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ پوری دنیا میں سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ انسانیت کو اس نسل کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے جہاں ناممکن پہلے ہی وقوع پذیر ہو چکا ہے اور چیزیں اچانک الٹ گئی ہیں۔
موجودہ بحران نے لوگوں کی روز مرہ زندگی میں بنیادی تبدیلیاں کر دی ہیں۔ یہاں تک کہ محبت، شفقت اور یکجہتی نے نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ اب محبت کے اظہار کا سب سے بڑا ثبوت اپنے پیاروں سے دور رہنا ہے۔
اس صورتِ حال کے نتیجے میں آرٹ اور موسیقی بھی متاثر ہوئی ہے۔ عرب فنکار اپنی صلاحیتوں کو کمیونٹی کے رابطوں کو بڑھانے،آگاہی پھیلانے،تعریف کرنے تاریخ کو محفوظ کرنے کے مختلف طریقوں سے استعمال کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی فنکارہ لینا عامر نے اپنے فن کو دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کے مذہبی طور طریقوں پر کووڈ 19 کے اثرات کو دستاویزی شکل دینے کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
سعودی عرب نے نمازِ پنجگانہ کی ادائیگی اور جمعے کے اجتماعات کے لیے مارچ میں مساجد کو عارضی طور پر بند کر دیا۔ دوسرے بہت سے ممالک نے بھی اسی طرح کے اقدامات اٹھائے۔ لینا عامر نے جائے نماز کو انسانی دل پر اتار کر یہ کپیشن دیا 'گھروں پر نماز ادا کریں، مارچ 2020'۔
تمام مسلم ممالک میں اذان کی صدا جزوی طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔ موذنوں کو اذان میں حي على الصلاة (نماز کے لیے آؤ) کی جگہ ’جہاں کہیں ہو وہیں نماز پڑھو‘ ، یا ’گھر میں نماز پڑھو‘ کے ساتھ تبدیل کرنا پڑا ہے۔
اوپر والی تصویر میں ابراہیم الباقر نے ایک عورت اور مرد کا ہاتھ بنایا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مرد نے سینیٹائزر پکڑا ہوا ہے
وباؤں کے دوران مقدس کتابوں کی تشریح میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ مصورہ یاسمین نے قرآن مجید کی اس آیت کے حوالے سے جس میں حضرت آدم کے دو بیٹوں، ہابیل اور قابیل کا تذکرہ ہے، کورونا کی وبا میں سلام دعا کے لیے ہاتھ ملانے کے خطرات کو بیان کیا ہے۔
آیت میں لکھا ہے ’اگر تم مجھے مارنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاؤ گے تو میں تمہیں مارنے کے لیے تمہاری طرف ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ بے شک میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔‘
جبکہ عمانی پینٹر اور گرافک ڈیزائنر عاصمہ خامیس ایک سے زیادہ پیغامات استعمال کیے جہاں انہوں نے سیناٹائزر کو منگنی کی انگوٹھی سے بدل دیا۔
خامیس نے عرب نیوز کو بتایا ’ پہلے میں یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ وہ دلہنیں جن کی شادیاں کورونا بحران کے سبب ملتوی یا منسوخ کر دی گئی تھیں کیسا محسوس کرتی ہیں۔‘
مراکش سے تعلق رکھنے والے اشراق بوزیدی نے سماجی دوری کے دوران انسانوں کے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کے طریقے میں بدلاؤ کی عکاسی کی ہے
ان کا مزید کہنا تھا ان خواتین کو یہ یاد دلاتے ہوئے تسلی دینا ہے کہ ’ان کے خصوصی دن کی قربانی کمیونٹی کی صحت کی طرف ان کے اعلیٰ احساس کی نشاندہی کرتی ہے۔‘
خامیس یہ بھی کہنا چاہتی تھیں کہ سینیٹائزر زیورات سے زیادہ اہم ہوگئے ہیں کیونکہ وہ صحت کو محفوظ رکھنے میں معاون ہیں۔ سینیٹائزر سے زیادہ قیمتی کوئی تحفہ نہیں ہے کیونکہ وہ بازار میں شاذ و نادر ہی دستیاب ہوتے ہیں۔
اس بحران سے قطع نظر،خمیس جیسے فنکاروں کہتے ہیں کہ اس بحران نے انہیں دو اہم چیزیں دی ہیں ’اس نے ہمیں وقت اور ایک نیا مسئلہ دیا ہے جو کام اور تخلیق کے لیے ایک نئی جگہ ہے۔’
دوسرے آرٹسٹوں جیسے کہ بحرین کے آرٹسٹ اور آرٹ ڈائریکر سعید المجید نے صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی تعریف کے اظہار کے لیے اپنے کام کو استعمال کیا ہے۔
لیبیا سے کولاج بنانے والے رضان الناس نے سینیٹائزرز کی اہمیت کو دیکھاتے ہوئے اس کی ایک بڑی بوتل کے نیچے انسانی ہاتھ بنائے ہیں
المجید نے لائن ڈرائنگ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ایک طبی عملے کے رکن کی ہاتھ اٹھائے وکٹری کے نشان والی تصویر بنائی جس کے بارے میں انہوں نے کہا یہ ’انسانیت کا دوسرے پر باہمی انحصار، ہم آہنگی اور اتحاد کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس لائن کا اختتام دل کی علامت کے ساتھ ہوتا ہے جو زندگی، محبت اور طبی کارکنوں کو داد دینے کے ساتھ ساتھ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔
المجید نے کہا ’مجھے یقین ہے کہ آرٹسوں پر اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اس مرحلے پر آگاہی پھیلانے اور انسانیت کے تمام محافظوں کا شکریہ اور تعریف کرتے ہوئے اس بحران کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے اپنا فن وقف کریں۔‘
کویت سے تعلق رکھنے والی امل العجمی المیجد سے متفق ہیں کہ فنکاروں کو اپنے فن کی آگاہی پھیلانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
کویت سے تعلق رکھنے والے امل العجمی نے عرب نیوز کو بتایا ’مجھے امید ہے کہ فنکار اس مشکل دور میں مثبت کردار ادا کریں گے کیونکہ بدقسمتی سے یہ بہت دباؤ اور غیر یقینی والا دور ہے۔‘
سعودی آرٹسٹ لینا عامر نے ان مسلمانوں کے جذبات کی عکاس ایک پینٹنگ بنائی ہے جو کورونا کی وجہ سے مساجد نہیں جا سکتے
العجمی نے ایک خلیجی عورت کی نقاب کیے اور ایک شخص کی چہرے پر ماسک پہنے ہوئے تصویر بنائی جس کا عنوان تھا ’یہ نقابی مردوں کا دور ہے۔’
ان کا کام اثر و رسوخ رکھنے والے ایک سعودی شخص کی ٹویٹ کے بعد سامنے آیا جو مسلمان خواتین پر فرض کی حیثیت سے نقاب کو فروغ دینے کی خواہش مند تھا۔
مذکورہ شخص نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا ’ لوگ خود کو کورونا سے محفوظ رکھنے کے لیے ماسک خرید رہے ہیں جبکہ اسلام نے 1400 سال پہلے اس کا علاج دریافت کر لیا تھا جب اس نے وائرس سے بچنے کے لیے نقاب پہننے کا حکم دیا تھا۔
بحرین کے ایک آرٹسٹ سید المجید نے طبی عملے کے ایک کارکن کی تصویر بنائی ہے
یہ ٹویٹ وائرل ہوئی تھی اور کافی تنقید ہونے کے کچھ دن بعد اسے حذف کر دیا گیا تھا۔
مائیک لینجیلو کی پینٹنگ ’تخلیقِ آدم‘ ہمیشہ ہر رجحان میں اپنی جگہ پائے گی اور ہمیشہ کے لیے فنکاروں اور انٹرنیٹ میم تخلیق کاروں کو متاثر کرے گی۔ ابراہیم البکر نے ایک ہاتھ مہندی سے سجا کر مصوری کو دوبارہ شکل دی جب یہ ہاتھ دروازے کے پیچھے سے اس کے محبوب کے ہاتھ تک پہنچتا ہے جس نے سینیٹائزر تھام رکھا ہے۔
لیبیا کے رضان الناس نے دیکھیا ہے کہ کیسے سورش زدہ علاقوں میں لاک ڈاؤن اور قرنطینہ جیسے اقدامات کوئی نئی بات نہیں ہیں
البکر نے ایک مشہور خلیجی گیت کا ایک جملہ استعمال کیا اور اس کی تکرار کرتے ہوئے کہا ’میں آپ کے دروازے پر حیرت زدہ اور سیناٹائز ہو چکا ہوں۔‘
اسی طرح لیبیا سے تعلق رکھنے والے کولیگسٹ راجن الناس نے مائیکلنجیلو کی مصوری سے وہی ہاتھ استعمال کیا جو ایک بڑی سینیٹائزر بوتل کے نیچے ہے۔ مقصد یہ اجاگر کرنا تھا کہ اچانک سینیٹائزروں نے کس طرح سے ایک حقیقی حیثیت حاصل کر لی ہے۔