مسلمان صدیوں سے کھانے کے معاملے میں کچھ ایسا طریقہ کار رکھتے چلے آ رہے ہیں جو انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ یعنی کسی مخصوص وقت کے لیے کسی ایک یا زیادہ غذائیں نہ کھانے سے کافی ملتا جلتا ہے۔
انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ پانچ دہائیوں سے چلا آ رہا ہے اور اس کی مختلف اقسام ہیں۔
یہ صحت کو بہتر رکھنے کے لیے ایک بہترین رجحان ہے جس کو لوگ وزن کم کرنے، صحت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں کئی ایسی تحقیقات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی بدولت جسم اور ذہن پر خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ کھانے کے بارے میں ایک ایسا طریقہ کار ہے جو کھانے اور نہ کھانے کے درمیان چلتا رہتا ہے۔ اس میں یہ تخصیص نہیں کہ کون سی چیزیں آپ نے نہیں کھانیں بلکہ کب کھانی ہیں۔
عام انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کا طریقہ کار سولہ گھنٹے یا پھر چوبیس گھنٹے پر مشمتل ہوتا ہے جو ہفتے میں دو بار ہو تا ہے۔
سعودی طبی، سپورٹس ماہر غذائیات اور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی لیکچرارسندوس ملائیکہ اس حوالے سے کہتی ہیں کہ بزرگ مسلمان ہفتے میں عادتاً دو روزے رکھتے ہیں کیونکہ یہ سنت ہے۔
ملائکہ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں اس بات پر خوش ہوں کہ جو کام ہم سالہا سال سے کرتے آ رہے ہیں آج وہ بہت مشہور اور پسند کیا جا رہا ہے‘.
انہوں نے مزید کہا کہ ’بہت سے بزرگ افراد سارا سال روزے رکھتے ہیں کیونکہ اس سے وہ بہتر محسوس کرتے ہیں، بہت سے دادا، دادی، نانا، نانی پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں اور یہ ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ وہ روزے کے سائنسی فوائد کے بارے میں نہیں جانتے، وہ صرف اس لیے ایسا کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک سنت ہے اور اس کی بدولت وہ اچھا محسوس کرتے ہیں، اور یہی بات مجھے بہت پسند ہے۔‘
’یہاں تک کہ ’دو پانچ‘ روزوں کا طریقہ بھی موجود ہے جس میں آپ ہفتے میں صرف دو دن روزہ رکھتے ہیں جو سنت کے مطابق پیر اور جمعرات کے روز ہیں۔‘
انٹرمیٹنٹ یا کھانے کے لیے وقت مخصوص کرنے کے کچھ مشہور طریقے یہ ہیں۔
سولہ آٹھ یا لین گینز
ان میں پہلا ہے سولہ، آٹھ کا طریقہ، اس کو لین گینز پروٹوکول بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ناشتے کو چھوڑتے ہوئے، کھانے پینے کے وقت کو آٹھ گھنٹے کے لیے محدود کیا جاتا ہے جیسے ایک سے نو بجے تک، جبکہ باقی کے سولہ گھنٹے تک کچھ نہیں کھایا جاتا۔
اِیٹ سٹاپ اِیٹ
اس میں چوبیس گھنٹے تک کچھ نہیں کھایا جاتا یہ ہفتے میں ایک یا دو بار کیا جاتا ہے مثال کے طور پر رات کے کھانے سے اگلے رات کے کھانے تک کچھ نہیں کھایا جاتا۔
پانچ دو خوراک
اس طریقہ کار کے مطابق آپ صرف پانچ سو سے چھ سو تک کیلوریز ہفتے کے غیر لگاتار دنوں میں لیتے ہیں جبکہ باقی کے پانچ روز نارمل کھاتے ہیں۔
رمضان کے روزوں میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک ہر قسم کے کھانے پینے سے پرہیز کیا جاتا ہے جبکہ انٹرمیٹنٹ یا وقفوں کے روزے میں زیرو کیلوریز والی اشیا جیسے پانی، چائے اور کافی کی عام طور پر اجازت ہوتی ہے۔
ملائکہ کا کہنا تھا کہ’جب صحیح طور پر روزہ رکھا جائے تو اس کے بہت سے فوائد ہیں، اس سے اضافی وزن کم ہو سکتا ہے، شوگر پر کنٹرول بڑھتا ہے، انسولین کی اثرپذیری بڑھتی ہے، خون میں چکنائی کم ہوتی ہے اور خطرناک بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے۔‘
’عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ جب وہ روزہ رکھتے ہیں تو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں اس کی وجہ ہے کہ ہم اپنے نظام ہضم کو خوراک ہضم کرنے اور فالتو چیزیں ختم کرنے کے لیے کافی وقت دیتے ہیں‘
انٹرمیٹنٹ یا وقفوں والے روزے رمضان کے روزوں کی نسبت بہت آسان ہیں کیونکہ ان میں پانی کی کمی ہونے کا بہت کم امکان ہوتا ہے۔
’تاہم کچھ لوگ کہیں گے کہ رمضان کے باقاعدہ روزے اس سے زیادہ فوائد کے حامل ہیں کیونکہ یہ مشکل ہوتے ہیں‘
انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کچھ لوگ حاصل ہونے والے فوائد کو اس وقت کھو دیتے ہیں جب ان کو کھانے کی اجازت مل جاتی ہے
’ یہ بات حتمی طور پر ان چیزوں کے الٹ ہے جو ہم حاصل کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں‘
رمضان کے دوران صحت کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ فوائد کے لیے ضروری ہے جس حد تک ممکن ہو گھر کے بنے کھانے کھائے جائیں۔
’بدقسمتی سے ہمیں رمضان میں کافی بری باتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جیسے ضرورت سے زیادہ کھانا، میٹھے کی بہت زیادہ خریداری اور گھر والوں کی ضرورت سے زیادہ کھانے کی تیاری وغیرہ،
روزے کو آسان بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں کھانے سوچ سمجھ کر بنائے جائیں، وہ زیادہ قوت بخش ہوں، زیادہ پروٹین، چکنائی اور کاروبوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوں۔‘
طبی ماہر غذائیات اروا باجخیف نے کہا رمضان کے روزے وقت کی قید پر مشتمل انٹرمیٹنٹ ہی ہے جو بالغ مسلمان ہر سال ایک مہینے کے لیے رکھتے ہیں۔
اروا باجخیف نے عرب نیوز کو بتایا ’میرے خیال میں یہ دونوں ہی صحت کے حوالے سے فوائد رکھتے ہیں بشرطیکہ ان کو درست طور پر آگے بڑھایا جائے۔‘
’ان دونوں میں سب سے بڑی مماثلت ایک خاص وقت کے لیے کھانے پینے سے منع ہونا ہے، چاہے اس کا تعلق مذہب یا روحانیت سے ہو یا پھر اس کی وجہ وزن کم کرنا ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر انٹرمیٹنٹ وزن کم کرنے کے لیے کی جائے تو اس کے لیے گھنٹوں کی تعداد مخصوص نہیں ہے لیکن یہ مشق کرنی چاہیے۔
’بدقسمتی سے یہاں پر کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے جس سے گھنٹوں کی تعداد مخصوص کی جا سکے نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ موٹاپے کا کوئی مستقل علاج ہے یا پھر اس کی وجہ سے صحت کو ہونے والے فوائد لمبے وقت کے لیے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ عمل کیے جانے کے قابل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ نسبتاً آسان ہے کیونکہ اس میں کھانے کے لیے خصوصی وقفہ موجود ہے۔ کم کھانے اور زیادہ کیلوریز خرچ کرنے پر انٹرمیٹنٹ وزن کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔‘
رمضان میں وزن کم کرنے کے ساتھ ساتھ ذیابیطس اور دیگر بیماریوں سے بچنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
باجخیف نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ بچوں، ٹین ایجرز، دوائیں کھانے والوں، ذیابیطس کے مریضوں، جن کے لیے بعض کھانے ناموافق ہوں، حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کے لیے نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک بہترین استاد ہے ’یہ ہمیں بہت سے مسائل سے بچنے کے لیے پہلے سے ہی تیار کرتا ہے۔،
’مسلمان ہونے کے نا تے ہمارے لیے اس کے بہت فوائد ہیں، دوسروں کی ضرورتوں کا احساس ہوتا ہے، یہ ہمیں خود پر قابو رکھنے، صحت کے مسائل سے بچنے اور اسراف سے بچاتا ہے۔‘
’ہمارا مذہب اپنی صحت کا خیال رکھنے کا درس بھی دیتا ہے جو کہ اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے اور یہ ہر مسلمان کی انفرادی طور پر ذمہ داری بھی ہے۔‘
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں