کراچی میں کورونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کو گھر سے ہسپتال منتقل کرنے والے فلاحی اداروں کو جعلی ٹیلی فون کالز کی پریشانی کا سامنا ہے جس سے ان کے کام کی استعداد متاثر اور حوصلے پست ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں ریسکیو سروسز اور ایمرجنسی ہیلپ لائن پر جعلی اور مذاق میں کی گئی کالز کی تعداد ہمیشہ سے ہی بہت زیادہ رہتی ہے جس سے نمٹنے کے لیے کال ریکارڈنگ، کالر لوکیشن، ٹریسنگ اور دیگر ٹیکنالوجیز کی مدد لی جا رہی ہے۔
کورونا وائرس کے دوران جاری لاک ڈاؤن میں بھی بعض افراد فلاحی اداروں کو کال کر کے مریضوں کی موجودگی کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کر رہے ہیں، ایسا کرنے میں بیشتر کا مقصد محض کسی کا چیلنج پورا کرنا اور ٹک ٹاک یا سوشل میڈیا کے لیے وڈیو بنانا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
سائبر کرائم کی شکایات میں تین گنا اضافہNode ID: 460261
-
فون سموں کی دوبارہ تصدیق کا فیصلہNode ID: 461566
-
پاکستان میں سائبر کرائم، چار سال میں چھ گنا اضافے کی وجوہات؟Node ID: 464026
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث فلاحی اداروں نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو وائرس کا شکار افراد کو گھر سے ہسپتال یا واپس گھر منتقل کرتی ہیں۔
کراچی میں ایدھی ایمبولینس سروس کے ڈائریکٹر محمد بلال نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'روزانہ کی بنیاد پر ہر ضلع میں کورونا کے تقریباً 20 سے 25 مریضوں کو گھر سے ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے جس کے لیے ہر ضلع میں کورونا مریض منتقلی ٹیم اور مرکز قائم کیا گیا ہے۔
محمد بلال کا کہنا تھا کہ 'ایسے بھی دن گزرے ہیں جب ایک ٹیم کو 10 جعلی کالز پر جانا پڑا، اور وہاں جا کہ پتا چلا کہ کسی نے مذاق کیا تھا۔'
انہوں نے بتایا کہ 'جعلی کالز کرنے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے، جو ازراہِ مذاق کالز کر کے کورونا کے مریض کے بارے میں جعلی معلومات فراہم کرتے ہیں۔'
ایک سوال کے جواب میں محمد بلال نے بتایا کہ 'جعلی کالز پر رسپانس کرنے کی وجہ سے نہ صرف ہمارا بہت سا وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ ریسکیو اہلکاروں کا مورال بھی ڈاؤن ہوتا ہے۔'

'ہمارا پروٹوکول ہے کہ ہم ہر کال پر رسپانس کرتے ہیں، چاہے 10 کالز بھی جعلی آجائیں پھر بھی گیارہویں کال پر ٹیم جاتی ہے۔ اس کے لیے ٹیم کو سمجھانا پڑتا ہے، اس کی ہمت بندھانا پڑتی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'جعلی کالز کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی تو نہیں کی جاتی، بس انہیں احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ لوگ اپنی غلطی تسلیم کر لیتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔'
گرمی میں شدت اور رمضان کی وجہ سے ریسکیو اہلکاروں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ایمبولینس ڈرائیور عبدالقادر نے بتایا کہ 'حفاظتی سوٹ میں بہت گرمی لگتی ہے اور سانس لینا تک دشوار ہو جاتا ہے، ایسے میں ہمیں جعلی کالز کی وجہ سے بہت مشکل اٹھانا پڑتی ہے۔'

فلاحی سروس چھیپا کے ترجمان شاہد چھیپا نے بتایا کہ 'ان کا ادارہ بھی کورونا وائرس مریضوں کو منتقل کرنے کا کام انجام دے رہا ہے، عمومی طور پر تو حکومتی عہدیداروں کی جانب سے ہی احکامات موصول ہوتے ہیں کہ کن لوگوں کو منتقل کرنا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ایمبولینس سروس کی ہیلپ لائن پر کالز آتی رہتی ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'جعلی کالز کا سلسلہ پرانا ہے تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ لوگ مشکل کے اس وقت میں بھی ریسکیو اہلکاروں کو پریشان کرنے سے باز نہیں آرہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'ہر روز چند کالز ایسی آجاتی ہیں جن میں کورونا کے مریضوں سے متعلق غلط معلومات دی جاتی ہیں، جب ٹیم مذکورہ جگہ پر پہنچتی ہے تو کال کرنے والے کا فون بند ملتا ہے یا کسی نے وڈیو بنانے کے لیے کال کی ہوتی ہے۔'

'ہمارے اہلکار کوئی قانونی کارروائی تو کر سکتے نہیں لہٰذا صرف تنبیہہ کر کے واپس آ جاتے ہیں۔'
فلاحی اداروں کو جعلی کالز آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس زیادہ بہتر ٹیکنالوجی نہیں، نہ وہ کال ٹریس کر سکتے ہیں نہ ہی ان کے پاس قانونی کارروائی کا کوئی آپشن موجود ہے، مگر ایسا نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سے محفوظ ہیں۔
سندھ پولیس کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 'مددگار 15 ہیلپ لائن پر ہر ماہ موصول ہونے والی کالز میں سے 80 فیصد سے زائد ایسی ہوتی ہیں جن میں معلومات غلط فراہم کی جاتی ہیں۔'
