عید خوشی بھرا تہوار ہے۔ اس خوشی کو بانٹ کر دوبالا کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے تو عید کے موقع پر عیدی دی جاتی ہے تاکہ عیدی لینے والے کے چہرے پر خوشی کے رنگ بکھیرے اور دیکھے جا سکیں۔
عیدی ہماری تہذیب اور روایات کا ایک حصہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روایات میں تبدیلی آئی ہے لیکن عیدی کی روایت کبھی ماند نہیں پڑی۔
مزید پڑھیں
-
عیدالفطر پر کرفیو، آن لائن اجازت نامے کس کے لیے؟Node ID: 480706
-
مساجد سے عید کی تکبیریں بلند کرنے کی اجازتNode ID: 480711
-
گھروں میں نماز عید کیسے ادا کریںNode ID: 480851
عیدی کا نام سنتے ہی ذہن میں کڑکڑاتے نوٹوں اور گھر کے بچوں کی طرف سے ان کے حصول کی خواہش اور جدوجہد کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں تو بالکل کڑکڑاتے اور نئے نکور نوٹوں کی عیدی کے علاوہ بھی عیدی کی بہت سی اقسام ہیں۔
صرف پاکستان کی بات کی جائے تو نقد عیدی پر چاروں صوبوں کے عوام بالخصوص بچوں کا مکمل اتفاق ہے اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ مہنگائی کی شرح کے حساب سے اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں پانچ دس روپے سے کام چل جاتا تھا آج کل کم سے کم ریٹ سو روپے ہے۔ اس سے کم ملنے والی رقم کو کم از کم عیدی نہیں گردانا جاتا۔
پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سبھی علاقوں کے بچے عیدی وصول کرتے ہیں اور زبردستی کرتے ہیں۔ البتہ کچھ والدین کس سے عیدی لینی ہے اور کس سے نہیں لینی؟ والی مخصوص نصیحت نماز عید سے پہلے دہرانا کبھی نہیں بھولتے۔ اب اس پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے اس کا دارومدار اس پر ہے کہ اپنے گھر سے عیدی کتنی ملتی ہے۔

ویسے تو کسی سے بھی عیدی نہ لینے کا سوچا بھی نہیں جاتا تاہم نقد عیدی عموماً والد، والدہ، چچا، ماموں، پھپھو اور خالہ جیسے قریبی رشتہ دار یا پھر کزنز ایک دوسرے کے بچوں کو ہی دیتے ہیں۔ قریبی دوست، فیملی فرینڈز بھی ایک دوسرے کے بچوں کو عیدی دیتے ہیں تاکہ باہمی تعلقات میں مزید قربت اور اپنا پن محسوس ہو۔ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں عیدی وصول کرنے کے بعد شکریہ یا عید مبارک کہہ کر ہی کام چلایا جاتا ہے جبکہ سندھ بالخصوص کراچی میں عیدی وصول کرنے والے کو سر جھکا کر آداب بجا لانا ہوتا ہے۔
نقد عیدی بانٹنے کے لیے باقاعدہ دعوتیں کی جاتی ہیں جہاں مہمانوں کے ساتھ آنے والے بچوں بلکہ جوانوں کو بھی عیدی دی جاتی ہے جبکہ مہمان بھی میزبان کے بچوں کو عیدی دیتے ہیں۔
اگر کسی لڑکی کی منگنی ہو جائے اور شادی ہونے تک جتنی بھی عیدیں آئیں اس کے ہونے والے سسرال سے ہر عید پر اس کے لیے عیدی آتی ہے۔ یہ عیدی کی دوسری قسم ہے۔ اس میں زرق برق لباس، چوڑیاں، مہندی اور ساتھ میں حسب استطاعت یا پھر تعلقات کی نوعیت کی بنیاد پر نقدی بھی ہوتی ہے۔ اس پر پورے پاکستان کی منگنی شدہ لڑکیوں کا مکمل اتفاق ہے اور وہ اسے ہونے والے سسرال پر پہلا حق سمجھتی ہیں۔ لڑکیاں عید پر وہی سب کچھ زیب تن کرتی ہیں۔

اس رسمی عیدی کو لوٹانے کا رواج بھی پایا جاتا ہے لیکن صوبوں کے عوام اس پر متفق نہیں ہیں۔ یعنی کراچی میں لڑکی والے بھی اپنے داماد کو اسی انداز سے عیدی لوٹاتے ہیں بلکہ عید والے دن بھی لڑکی کے گھر سے آنے والے اپنے داماد کو عیدی دیتے ہیں۔ پنجاب میں ہونے والے داماد کے پیکج میں یہ سہولت شامل نہیں۔ بلوچستان میں بھی ہونے والے داماد کو عیدی دینے کا کوئی رواج نہیں لیکن سننے میں آیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے دامادوں کی سنی گئی ہے اور آہستہ آہستہ یہ رسم شروع ہو رہی ہے۔
پنجاب میں اب سے کچھ عرصہ پہلے تک بالخصوص دیہات میں یہ رسم عام تھی کہ منگنی یا شادی ہو جانے کے بعد پہلی عید کے موقع پر چھوٹی سالی اپنے بہنوئی سے پینگ یعنی رسی سے بنے جھولے اور اس کی رنگ برنگی سیٹ جسے پنجابی میں بینڈی کہتے ہیں کا تقاضا کرتی تھی۔ دلہے میاں اپنی چھوٹی سالی کی اس فرمائش کو پورا کرنے کے پابند ہوتے تھے، تاہم رفتہ رفتہ یہ رسم معدوم ہو چکی ہے۔

عیدی کی تیسری اور سب سے اہم قسم شادی شدہ بیٹی کے لیے عیدی ہوتی ہے۔ بیٹیاں چوں کہ اپنے میکے کو لے کر بہت جذباتی ہوتی ہیں تو شادی کے بعد پہلی عیدی کا تو ان کو شدت سے انتظار ہوتا ہے۔ پنجاب میں عموماً پہلی عید میکے میں کرنے کا رواج ہے پھر بھی عید سے پہلے مائیں اپنی بیٹیوں کو عیدی بھجواتی ہیں جس میں کپڑے، جوتے، چوڑیاں، مہندی اور نقدی شامل ہوتی ہے۔
سندھ بالخصوص کراچی میں عید سسرال میں ہی کرنے کا رواج زیادہ ہے تو میکے سے عیدی کا آنا سب سے بڑی خوشی سمجھا جاتا ہے۔ کراچی کی اردو بولنے والی آبادی رمضان کے آخری عشرے میں بیٹی کے گھر عیدی کے نام پر بعض اوقات پورے خاندان کے کپڑے تک بھیجتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر صرف بیٹی اور داماد کو دیتے ہیں۔ اس میں کپڑے جوتے، مہندی اور چوڑیوں کے علاوہ سویاں، چینی، میوہ جات اور دودھ بھی شامل ہوتا ہے۔

کراچی کی یاسمین اشفاق کو ان کے اپنے بچے جوان ہونے تک اپنی والدہ کے گھر سے ایسی ہی عیدی ملتی تھی۔ گذشتہ سال نومبر میں انہوں نے اپنی بیٹی نمرہ زوہیب کی شادی کی تو اس دفعہ ان کی پہلی عید آ رہی ہے۔ نمرہ زوہیب کو لاک ڈاؤن اور کورونا کی صورت حال کے باعث لگ رہا تھا کہ انہیں میکے سے پہلی عیدی شاید موصول نہیں ہو سکے گی، لیکن نمرہ زوہیب نے جذباتی انداز میں اردو نیوز کو بتایا کہ 'ماں تو ماں ہوتی ہے وہ کورونا کہاں دیکھتی ہے۔ مجھے ویسے ہی عیدی ملی جیسے نانی میری امی کو بھیجا کرتی تھیں۔ یہ سب دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور بچپن سے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ سب کچھ ذہن میں دوڑ سا گیا۔ اس اعلیٰ جذبے کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔'
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی شادی شدہ بیٹیوں کو عیدی بھیجنے کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔
