Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عید پر گلے ملنے کی روایت کب اور کیسے شروع ہوئی؟

گلے ملنے کی روایت مذہبی اور ثقافتی دونوں حوالوں سے صدیوں پرانی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
عید کے دن کی تین نمایاں باتیں ہوتی ہیں، اچھے کپڑے پہننا، ہر کسی سے گلے مل کر عید مبارک کہنا اور من پسند کھانے کھانا۔ 
عید کی خوشی اور مبارک باد اس وقت تک مکمل ہوتی محسوس نہیں ہوتی جب تک عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو اچھی طرح گلے مل کر بار بار عید مبارک نہ کہا جائے۔
لیکن اس سال کی پہلی عید تو کورونا کے دنوں میں آرہی ہے، جس میں گلے ملنا تو دور، ہاتھ ملانا بھی ممکن نہیں کیونکہ اگر آپ دوسروں کے قریب آئے تو آپ کو وائرس لگنے کا خدشہ ہے۔ وائرس سے بچنے کے لیے کسی بھی دوسرے شخص سے کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔ تو ایسے میں گلے کیسے ملیں۔ 
لیکن کیا عید پر گلے ملنا (معانقہ کرنا) اتنا ہی ضروری ہے؟ آخر انسان گلے ملتے کیوں ہیں؟
 ماہرین کے مطابق گلے ملنے کی روایت مذہبی اور ثقافتی دونوں حوالوں سے صدیوں پرانی ہے جو انسانوں کو محبت، عزت اور طمانیت کا احساس دلاتی ہے۔ 
ممتاز مذہبی سکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں گلے ملنے کی روایت پیغمبر اسلام کے بعد سے بہت زیادہ پروان چڑھی ہے کیونکہ وہ ہر ملنے والے کو عزت اور محبت سے ملتے اور مصافحہ اور معانقہ کرتے تھے۔
'ان کے دیکھا دیکھی صحابہ اور بعد میں آنے والے مسلمانوں نے اپنے پیاروں سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے ان سے گلے ملنا اور مصافحہ کرنا ایک اہم معمول بنا لیا۔' 
ان کا کہنا ہے کہ معانقہ اسلام میں بہت زیادہ مستحب ہے اور اس سے محبت اور احترام کا اظہار بھی ہوتا ہے تاہم مذہبی حوالے سے اس کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ 

ماہرین کے مطابق گلے ملنا خوشی، محبت اور احترام کا اظہار ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ماہر بشریات ڈاکٹر حفیظ الرحمان بتاتے ہیں کہ معانقہ کرنے یا گلے ملنے کی تاریخ انسانی تہذیب جتنی ہی پرانی ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنوع آ گیا ہے اور مختلف علاقوں میں اس کے رواج اور شکلیں بھی مختلف ہوتی گئی ہیں۔ 
'یہ مذہبی اور ثقافتی دونوں لحاظ سے رواج کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ یہ خوشی کا اظہار ہے، محبت کا اور احترام کا بھی۔ جس طرح کچھ علاقوں میں لوگ دور سے ہاتھ ہلا کر خوشی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں، کچھ علاقوں میں جھک کر اور ہاتھ جوڑ کر، اسی طرح کچھ علاقوں میں گلے مل کر محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔' 
خوشی ہو یا غم، کسی بھی شدید جذباتی کیفیت میں گلے ملنے سے جو طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ محض رواج نہیں بلکہ انسان کے دل، دماغ اور پورے جسمانی نظام سے منسلک ہوتی ہے۔ ایسا کئی مرتبہ ہوتا ہے کہ کسی انسان سے بار بار گلے ملنے کو دل کرتا ہے۔ 

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گلے ملنے سے کورونا پھیلنے کا خدشہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 دو دیرینہ دوست یا قریبی رشتہ دار جب ملتے ہیں تو ایک مرتبہ گلے لگنے کے بعد دوبارہ سے یہ عمل دہراتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ گلے ملنے سے مکمل اطمینان نہیں حاصل کر پاتے جس کی وجہ سے وہ بار بار ایسا کرتے ہیں۔ 
ماہر نفسیات سعدیہ اشرف اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ چھونے میں زندگی رواں کرنے کی طاقت ہے۔ جب انسان دوسرے انسان کو گلے لگاتا ہے تو اس سے اس کے دماغ کا وہ حصہ متحرک ہو جاتا ہے جو شفقت اور صلے کے جذبات سے منسلک ہے۔ یہ دل کو سکون بخشتا ہے اور ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے۔ گلے ملنا تنہائی اور سماجی تنہائی کے کو بھی احساس کو ختم کرتا ہے۔ 

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق گلے ملنا مذہبی فریضہ نہیں ہے (فوٹو: اے ایف پی)

'مطالعہ بتاتا ہے کہ گلے ملنے سے انسانی خون میں ’اوکسی ٹوسن‘ ہارمونز جن کو رشتے اور خیال رکھنے کے جذبات سے تعبیر کیا جاتا ہے کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ یہ ہارمونزخون  کے دباؤ کو کم کرتے ہیں، مسلز کو ریلیکس کرتے ہیں اور گردن اور کندھوں سےکھچاؤ ختم کرتے ہیں۔ دماغی طور پر سکون بخشتے ہیں۔' 
لیکن کورونا وائرس سے نمٹنے والے ڈاکٹرز کی تنبیہہ ہے کہ ذہنی سکون تبھی میسر آئے گا جب جسمانی سکون ہو گا اور کورونا وائرس چھونے سے ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہو کر اس کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ 
انفیکشن سے پھیلنے والی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر محمد جاوید بھٹہ کہتے ہیں کہ جب آپ کسی دوسرے انسان سے گلے ملتے ہیں تو آپ دونوں کی سانسیں بھی آپس میں ملتی ہیں جس سے وائرس ایک دوسرے کو منتقل ہوتے ہیں۔ کورونا بھی ایسے ہی پھیل رہا ہے، ایک دوسرے کے قریب جانے سے، ٹچ کرنے سے۔

طبی ماہرین کے مطابق کورونا سے بچنے کے لیے سماجی فاصلہ ضروری ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’اس لیے بہتر ہے کہ یہ عید بغیر گلے ملے منائی جائے، ’سوشل ڈسٹنسنگ‘ کر کے، ماسک پہن کر اور ایک دوسرے سے دور رہ کر، اور محبت، عزت اور احترام کے جذبات پہنچانے کے لیے دور سے ہی دل پر ہاتھ رکھ کر اور ذرا سا جھک کر سلام کر لیا جائے جیسا کہ آج  کل ٹی وی پر چلنے والے ترکی کے ایک ڈرامے میں ارتغرل کر رہا ہے۔' 
 قبلہ ایاز کے مطابق گلے ملنے کی روایت اتنی ضروری نہیں ہے کہ اس کے بغیر عید مکمل ہی نہ ہو۔ یہ نہ تو کوئی مذہبی فریضہ ہے اور نہ ہی ایسی سنت جس کی ادائیگی لازم ہو۔ لہٰذا کورونا سے بچنے کے لیے اس سے ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔ 

اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ عید پر مصافحے سے گریز کریں (فوٹو: روئٹرز)

'اسلامی نظریاتی کونسل پہلے ہی ہدایت جاری کر چکی ہے کہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مصافحے اور معانقے سے گریز کیا جائے۔ عید الفطر کے موقع پر بھی اس ہدایت کو نافذالعمل سمجھا جائے اور اس کی مکمل طور پر پاسداری کی جائے۔'

شیئر: