Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سرکاری ایمبولینس بھی نہیں آئی‘

کراچی ماڈل کالونی طیارہ حادثے میں ہلاک مسافروں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں کی جانب سے مؤثر رہنمائی اور سہولت فراہم نہیں کی گئی، میتوں کی شناخت اور ان کی وصولی سے متعلق تمام تر معاملات انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت طے کیے ہیں۔
پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303، 22 مئی بروز جمعہ جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر حادثے کا شکار ہوئی جس میں عملے سمیت 97 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ دو مسافر معجزاتی طور پر محفوظ رہے۔
پی آئی ترجمان عبداللہ حفیظ نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے 41 افراد کی شناخت تو اگلے 24 گھنٹے میں ہوگئی تھی اور حادثے کے 48 گھنٹے کے اندر ہی ان کی میتیں ورثا کے حوالے بھی کر دی گئی تھیں۔
عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ دیگر 56 افراد کی نعشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹنگ کی جانی تھی جس میں کچھ وقت درکار تھا جس کے لیے ان میتوں کو سرد خانے میں رکھنا پڑا، تاہم کسی سرکاری ہسپتال کا سرد خانہ اتنا بڑا نہیں کہ 56 میتیں رکھی جاسکتیں، لہٰذا مجبوراً فلاحی تنظیموں ایدھی اور چھیپا سے مدد لی گئی۔
’ان کے سرد خانے بھی چھوٹے تھے لہٰذا کچھ میتیں ایدھی گئیں جبکہ دیگر چھیپا۔‘
قومی ائیرلائن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس فضائی حادثوں کی صورت میں امدادی کارروائی اور اطلاعات کی فراہمی کا ضابطہ کار موجود ہے جس پر عمل درآمد بھی کیا گیا، اور جو نعشیں شناخت ہوئیں انہیں اہلِ خانہ کے حوالے بھی کر دیا گیا۔
’لیکن ناقابلِ شناخت نعشوں کو رکھنے اور ان کی شناخت کا ذمہ حکومت کا تھا جس کے پاس اس حوالے سے کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔‘

41 افراد کی شناخت اگلے 24 گھنٹے میں ہوگئی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

صوبائی حکومت اور شہری انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مرکزی معلوماتی ڈیسک قائم نہیں کیا گیا جس کے ذریعے یہ پتا لگ سکے کہ کون سی میت کس سرد خانے میں ہے، اور یہ کہ میت وصول کرنے اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
کراچی کے رہائشی فیض اللہ جواد کی بہن اور ان کے تین بچے اس حادثے میں ہلاک ہوئے، انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی سہولت یا مدد فراہم نہیں کی گئی، اور تمام تر انتظامات انہوں نے خود ہی کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ میتوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کے سیمپلز بھی انہوں نے خود ہی لاہور میں واقع پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بھیجے۔
فیض اللہ نے بتایا کہ انہیں تو اپنے بھانجے کی میت وصول کرنے کے بعد اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
فیض اللہ کے بہنوئی عارف فاروق جن کی اہلیہ اور بچے اس حادثے میں ہلاک ہوئے، انہوں نے نہ صرف اپنے بلکہ دیگر تمام متاثرہ خاندانوں کی مدد کی اور ان کی سہولت کے لیے حکومتی اداروں سے خود بات کی۔
وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا افضل نے بیان دیا تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریعے شناخت کے عمل میں تین ہفتے سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے، جس کے بعد لواحقین نے اپنی مدد آپ کے تحت پنجاب فرانزک لیبارٹری سے یہ ٹیسٹنگ کروائی۔

 پشاور کے چرچ میں حادثہ متاثرین کے لیے دعا کی گئی۔ فوٹو اے ایف پی

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حکومت پنجاب کی طرف سے فرانزک لیبارٹری کے عملے کو اس کام پہ مامور نہیں کیا گیا تھا، اور انہوں نے خدمت انسانی کے تحت یہ کام کیا۔
اس حوالے سے عارف فاروق نے پی آئی اے کے تعاون سے ایک ضابطہ کار تشکیل دیا جس میں انہوں نے تمام لواحقین کو بتایا کہ کیسے وہ کراچی یونیورسٹی کی لیبارٹری جا کر سیمپل دیں اور وہ سیمپل خود ائیرپورٹ جا کر پی آئی اے کے حوالے کریں، جو کیبن کریو کے ساتھ اسے لاہور بھیجے گا۔
دوسری جانب لاہور میں بھی ایک رضاکار ایئرپورٹ سے سیمپل لے کر اسے لیباٹری لے کر جائے گا۔ ایسا کرنے سے کراچی یونیورسٹی کی فرانزک لیبارٹری پر بوجھ کم ہوا اور نعشوں کی شناخت کا عمل جلد انجام دیا گیا۔
حادثے میں ہلاک ہونے والے مسافر وحید بیگ کے اہلخانہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر نعشوں کی شناخت میں تاخیر اور حکومتی نااہلی پر کافی تنقید کی جارہی تھی، جس کے بعد ان کے ڈی این اے سیمپل لاہور بھجوائے گئے جہاں چھ گھنٹے میں اس کی ٹیسٹنگ ہو گئی جس کے بعد اتوار کو ان کی میت ورثا کے حوالے کی گئی۔
یاد رہے کہ کمشنر کراچی کی جانب سے نعشوں کی شناخت اور ان کی حوالگی سے متعلق ضابطہ کار 28 مئی کو حادثے کے پانچ دن بعد جاری ہوا تھا۔

لواحقین کو ڈیتھ سرٹیفیکیٹ بنوانے میں کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ فوٹو اے ایف پی

لواحقین کا دعویٰ ہے کہ ایسا بھی صرف اس لیے ممکن ہوسکا کیوں کہ انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اعلیٰ اداروں تک اپنا مسئلہ پہنچایا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران نے معاملہ حل کروانے کے لیے اپنے ملٹری اتاشی کو مامور کیا تھا جس کے بعد ہی حکومتی ادارے حرکت میں آئے۔
معلومات کی فراہمی کے  خلا کو پُر کرنے کے لیے فلاحی کارکن مصطفیٰ احمد بھی پیش پیش رہے۔ مصطفیٰ نے تمام حکومتی اور فلاحی اداروں سے رابطے کر کے ان کے پاس موجود معلومات حاصل کیں اور سب کو یکجا کیا تاکہ لواحقین کی سہولت ہو سکے۔ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تمام معلومات اکھٹا کرنے کے بعد انہوں نے لواحقین سے رابطہ کیا اور ان کی تمام مراحل میں مدد اور رہنمائی کی۔
مصطفیٰ احمد کا کہنا تھا کہ معلومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے لواحقین نہایت پریشان تھے اور حکومتی اداروں کی جانب سے مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو پتہ نہیں تھا کہ میتیں وصول کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
’ایسے میں ہم نے معلومات اکھٹا کیں، لواحقین سے رابطہ کیا اور میتوں کی فراہمی کے عمل کو سہل کیا۔

تمام میتیں ایدھی اور چھیپا کے سرد خانوں میں رکھیں گئیں۔ فوٹو اے ایف پی

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مصطفیٰ احمد نے اسی جہاز میں سفر کے لیے سیٹ نمبر 13-A کا ٹکٹ بک کیا تھا تاہم تکنیکی مسئلے کی وجہ سے آن لائن ادائیگی ممکن نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے وہ سیٹ کسی اور مسافر کو مل گئی، جبکہ مصطفیٰ دوسری پرواز سے کراچی آئے۔
پی آئی ترجمان کے مطابق جائے حادثہ پہ تمام تر ریسکیو اور ریلیف کا کام پاک فوج نے انجام دیا، دیگر کسی ادارے کی کوئی مشینری وہاں موجود نہیں تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نعشوں کو لے جانے کے لیے تمام تر ایمبولینسز بھی فلاحی اداروں کی تھیں، حکومتی اداروں کی کوئی ایمبولینس وہاں نہیں آئی۔
سوموار کو جاری بیان میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بتایا کہ حادثے میں ہلاک ہونے والے 97 افراد میں سے اب تک 84 جسد خاکی کی شناخت ہو چکی ہے جس میں سے 45 کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریعے کی گئی، یہ تمام میتیں ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت چار نعشیں چھیپا  کے پاس ہیں جبکہ 9 نعشیں ایدھی کے مردہ خانے میں ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: