97 مسافروں میں سے اب تک صرف 47 کی شناخت ہوسکی ہے(فوٹو اے ایف پی)
کراچی میں پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 8303 کے سانحے کو پانچ دن گزر گئے ہیں مگرجان سے جانے والے 97 مسافروں میں سے اب تک صرف 47 شناخت کر کے ان کو تدفین کے لیے لواحقین کے حوالے کیا گیا ہے۔
عملے کے پانچ ارکان سمیت 50 میتیں ابھی تک شناخت کی منتظر ہیں اور لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی تدفین کے بغیر شدید دلی اور ذہنی کرب میں مبتلا ہیں۔
بدھ کو اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے تصدیق کی کہ اب تک صرف 47 نعشوں کی شناخت کا عمل مکمل ہو سکا ہے اور 43 میتیں تدفین کے لیے لواحقین کے حوالے بھی کی جا چکی ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے لواحقین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اعلی ترین سطح پر اس معاملے پر نوٹس لے کر جلد سے جلد اس عمل کو مکمل کرکے ان کے پیاروں کی تدفین ممکن بنائیں تاکہ وہ اس کرب کی کیفیت سے نکل سکیں۔
حادثے کا شکار ہونے والی لاہور کی ایئر ہوسٹس انعم خان کی بہن رمشا خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے بوڑھے والدین اپنی بیٹی کی تدفین کے بغیر بہت زیادہ کرب سے گزر رہے ہیں۔ ’میرے والد جو دل کے مریض ہیں ہفتے کو کراچی گئے تھے اور پیر کو واپس آگئے۔ کراچی میں جس طرح وہ ایک ایک باکس سے اپنی بیٹی کی ایک ایک نشانی کو تلاش کرنے کے دوران دکھ اور تکلیف سے گزرے ہیں وہ قابل بیان ہی نہیں ہے۔ تاہم انہیں اپنی بیٹی کی کوئی نشانی نہیں ملی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کا پورا خاندان بہت کنفیوژن کا شکار ہے۔ ’اس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا کسی کو کچھ سجائی نہیں دے رہا ہمیں بس انعم کی تلاش ہے۔‘
ایک سوال پر کہ کیا پی آئی اے یا حکومتی اہلکار ان سے تعاون کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد ان کے گھر آئیں تھیں اور کراچی میں پی آئی اے کے عملے کے ارکان نے انہیں بہت پروٹوکول بھی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انعم خان پورے خاندان کی کفیل تھی جس نے اپنی دو چھوٹی بہنوں اور بھائی کو پڑھایا اور رمشا خان کی شادی بھی کی اب خاندان میں کوئی کمانے والا نہیں بچا۔ رمشا کے مطابق ان کے والد نے پی آئی اے کے سی ای او ارشد ملک سے کراچی میں بات کرتے ہوئے اپنے واحد کفیل کے چھن جانے کا زکر کیا اور انعم کی چھوٹی بہن بی بی اے آنرز کو ان کی جگہ جاب دینے کی درخواست کی مگر انہیں صاف انکار کر دیا گیا۔
کراچی میں دو بچوں سمیت اپنی جان سے جانے والے میاں بیوی محمد وقاص اور ندا وقاص کے اہل خانہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ تین افراد کی تدفین ہوچکی ہے مگر دس سالہ بیٹی کی میت کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
وقاص کے قریبی عزیز رضی شیخ کے مطابق پورا خاندان ڈی این اے کے نتائج کا انتظار کر رہا ہے اور اب جبکہ حکومت کی طرف سے بیس پچیس دن تک لگ جانے کی بات کی جا رہی ہے تو اپنے پیاروں کو کھونے کی اذیت مزید بڑھ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بدھ کو پی آئی اے کے حکام نے ان سے رابطہ کر کے گھر آنے کا بتایا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا وہ حکومت سے کوئی مطالبہ کریں گے ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے قیمتی چیز تو چلی گئی اب کیا مطالبہ کرنا۔‘
’عمران خان خود آگے بڑھیں اور ہماری داد رسی کریں‘
دوسری طرف المناک حادثے میں اپنی بیوی اور تین بچوں کو کھو دینے والے لاہور کے عارف اقبال نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں وزیراعظم عمران خان سے خود سامنے آکر معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ اپنے دو کھوئے ہوئے بچوں کی میتیں لا کر دفنا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو جیولری اور بینڈ سے پہچانا اور اپنی بچی کو اس کے کپڑوں اور بینڈ سے پہچانا اوران کی تدفین کر دی ہے مگر پانچ سال سے چھوٹی بچی اور ساڑھے 14 سال کے بیٹے کی میت ابھی تک انہیں نہیں ملی۔
’جب سے کراچی آیا ہوں صرف بیوروکریسی کا سرخ فیتے کا ہی سامنا کیا ہے۔ کوئی ریلیف نہیں ملا سوائے لاہور سے کراچی مفت فلائیٹ کے یا ہوٹل میں ٹھہرنے کے۔ مگر ڈی این اے سیمپل جو لیا گیا ہے وہ غلط ہے ۔۔اگر میں نے بیوی اور بچی کو پہچانا نہ ہوتا تو شاید وہ مجھے ٖغلط میتیں ہی دے دیتے۔‘
اب ایک ٹیم ڈی این اے اور فرانزک پر سندھ سے کام کر رہی ہے اور ایک پنجاب سے کیونکہ انہیں سندھ والی پر اعتماد نہیں ہے۔
’مجھے کوئی پتا نہیں کیا کرنا ہے۔ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ رہا ہوں۔ عمران خان صاحب پلیز ایکشن لیں پلیز آگے بڑھیں ہم نے چار دن سے آپ سے کچھ نہیں سنا۔ ابھی بھی میں اپنے دوبچوں کی میتیں ڈھونڈ رہا ہوں۔ پلیز اس مسئلے کا حل نکالیں۔ کسی کو میتیں بغیر تحقیق کے نہ دیں۔‘
سما ٹی وی کے ٹاک شو میں بات کرتے ہوئے عارف اقبال نے مزید بتایا کہ کراچی جے پی ایم سی ہسپتال میں کوئی ہیلپ ڈیسک نہیں۔ یہاں ایک کمانڈ سنٹر ہونا چاہیے۔ مقامی حکام کو کچھ پتا نہیں ہے۔ میں نے جن کو کھونا تھا کھودیا ہے۔
’میرے کچھ لوگوں سے تعلقات یا رابطے تھے میں نے دو میتیں حاصل کیں جن غریبوں کا کوئی اثر رسوخ نہیں وہ کیا کریں؟ کوئی ایک شخص (فوکل پرسن) نہیں جس سے کال کر پوچھیں کہ طریق کار کیا ہے؟‘
شو میں موجود معاون خصوصی برائے صحت ظفر مرزا نے حکومت کی غلطی اور حکام کی اس طرح کے سانحے میں لواحقین سے بات کرنے کے انداز کی تربیت کے فقدان کو تسلیم کرتے ہوئے لواحقین سے معذرت بھی کی اور کراچی جا کر خود ان کے مسائل سننے کا وعدہ بھی کیا۔
پی آئی اے کا ون ونڈو آپریشن
دوسری طرف اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بتایا کہ 47 میتوں کی شناخت ہو چکی ہے جبکہ باقی میتیں جل جانے کی وجہ سے آسانی سے شناخت نہیں ہو پا رہی ہیں اس لیے ڈی این اے اور فرانزک ٹیسٹ کے ذریعے ان کی شناخت کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پی آئی اے کا تمام فوکس حادثے کا شکار ہونے والی افراد کے خاندانوں کی مدد ہے۔ 97 میتیں ہیں ان کی شناخت تدفین اور فیملیز کی لاجسٹک سپورٹ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جن افراد کی تدفین ہوئی ہے پی آئی اے حکام ان کے جنازوں میں بھی شریک ہوئے ہیں اور جن کی شناخت ابھی باقی ہے ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شناخت ہونے والے جسد خاکی میں خالد شیر دل بھی شامل ہیں جن کی میت کو لواحقین کے حوالے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سی ای او پی آئی اے ارشد ملک نے طیارہ حادثے کا شکار ہونے والے تمام افراد کے اہل خانہ سے ذاتی طور پر رابطہ اور تعزیت کی ہے اور اور کسی بھی قسم کی ضرورت یا مدد کی صورت میں اپنی ذاتی خدمات کی پیشکش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لواحقین کے ساتھ کیے گئے وعدے کے طور پر لواحقین کیلئے ون ونڈو آپریشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ون ونڈو آپریشن کے تحت شناخت کے لیے تمام اداروں سے کورڈینیشن، میتوں کی حوالگی اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کے حصول میں پی آئی اے مدد فراہم کرے گا۔
پی آئی اے کے مطابق لواحقین کو انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک ٹکٹیں جاری کی جا رہی ہے اور حادثے کا شکار میتوں ان کے گھروں تک پہنچایا جارہا ہے۔
حکام کے مطابق ڈی این اے کے ذریعے تشخیص ایک پیچیدہ اور صبر آزما عمل ہے جس کی حساسسیت کی وجہ سے وقت لگ رہا ہے۔