Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'مظاہرین کی تعداد توقع سے بہت کم رہی'

دنیا بھر میں ہزاروں افراد نے نسل پرستی اور پولیس تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ فوٹو: یو ایس اے ٹوڈے
سماجی فاصلے کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نسل پرستی اور پولیس کے تشدد کے خلاف عالمی سطح پر احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا ہے۔
ان مظاہروں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی مظاہرین نے نسل پرستی کے خلاف پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے ایف پی کے مطابق کہ منیسوٹا میں امریکی پولیس کے ہاتھوں کے ایک سیاہ فام امریکی کی ہلاکت کے خلاف حکام کی تنبیہ کے باوجود ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر وبا کے دوران ہی نکل آئے۔
وبا یورپ اور ایشیا میں تو کم ہو رہی ہے تاہم باقی دنیا میں پھیل رہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے مظاہرے کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے اس میں شریک افراد کی تعداد کو توقع سے کم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’نیشنل گارڈز، سیکرٹ سروس اور پولیس اپنے فرائض زبردست طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔‘
ادھر لندن میں پارلیمان کے سامنے مظاہرین سے خطاب میں ایک شخص نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اداروں سے نسل پرستی کا خاتمہ کیا جائے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ خاموشی تشدد ہے۔ جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے خلاف مانچسٹر میں بھی مظاہرے ہوئے۔
کورونا وائرس کے خلاف آسٹریلیا کے وزیراعظم کی تنبیہ کے بغیر کئی شہروں میں ’ بلیک لائیوز مومنٹ‘ کی تحریک کے حمایت میں نکل آئے۔
اس احتجاجی مظاہرے کی اجازت آخری وقت میں دی گئی۔
تیونس میں مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ’ ہمیں انصاف چاہیے، ہم سانس لینا چاہتے ہیں۔‘

مظاہرے میں شریک ایک شخص نے کہا کہ ’خاموشی تشدد ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

وارسا اور صوفیہ میں بھی چھوٹے پیمانے پر نوجوانوں کی جانب سے امریکی سفارت خانوں کے سامنے مظاہرے ہوئے۔
جرمنی، نیدر لینڈ اور بیلجیئم میں بھی سینکڑوں افراد مظاہروں میں شریک ہوئے اور جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کی مذمت کی۔
عراق جیسے جنگ زدہ ملک میں بھی لوگ جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے خلاف نکل آئے۔

کئی مظارے امریکی سفارت خانوں کے سامنے بھی ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

عراق میں سوشل میڈیا پر ’امریکہ میں بغاوت‘ اور ’میں سانس لینا چاہتا ہوں‘ کہ ہیش ٹیگس بنے ہوئے ہیں۔
امریکہ میں اب بھی مظاہرے جاری ہے۔
واضح رہے کہ 25 مئی کو سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کی موت اس وقت ہوئی تھی جب ان کو حراست میں لینے والے پولیس اہلکار نے ان کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھا تھا۔
 

شیئر: