Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا ایک موثر ہتھیار

مظاہروں سے متعلق تمام تفصیلات سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
امریکہ میں غیر مسلح سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف جاری مظاہروں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جن کا احتجاج کو انتہائی منظم طریقے سے جاری رکھنے میں نمایاں کردار سامنے آیا ہے۔
سوشل میڈیا پر سرگرم ایکٹوسٹس کا گروپ ’فریڈم فائٹرز ڈی سی‘ کے ترجمان نے خبر رساں اسارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’سوشل میڈیا انقلابی اقدامات کا ذریعہ ہے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہی بے انتہا فرق پڑا ہے۔‘
فریڈم فائٹرز ڈی سی سمیت دیگر ایکٹوسٹ گروپ احتجاج سے متعلق تمام معلومات اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کر دیتے  ہیں جہاں سے دلچسپی رکھنے والوں کو ایک ساتھ ہی احتجاج کی جگہ اور وقت کا علم ہو جاتا ہے۔
’فریڈم فائٹرز ڈی سی‘ کے ترجمان نے بتایا کہ ان کے گروپ کا نعرہ ’انصاف نہیں، امن نہیں‘ ہے،  یعنی شہریوں کو انصاف دیے بغیر امن ممکن نہیں ہے۔
فریڈم فائٹرز ڈی سی کے علاوہ ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے نام سے بھی ایک اور گروپ انتہائی سرگرم ہے۔ فریڈم فائٹرز ڈی سی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ ’بلیک لائیوز میٹرز کے ساتھ  مشترکہ پلان طے کرتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتے ہیں۔
فریڈم فائٹرز ڈی سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں ان کے فالوورز کی تعداد  بیس ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے اور ہزاروں ڈالر عطیے میں ملے ہیں جن کے ذریعے ان مظاہرین کی مدد کی جائے گی جو احتجاج کے دوران گرفتار ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے متعدد سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر روزانہ سینکڑوں پیغامات وصول کرتے ہیں جن میں مظاہرین کے لیے مدد کی آفر کی گئی ہوتی ہے۔
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Freedom Fighters DC (@freedomfightersdc) on

وائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کے دوران بڑی تعداد میں رضاکاروں نے مظاہرین میں پانی کی بوتلیں اور کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ دودھ کی بوتلیں بھی بانٹیں۔ دودھ منہ پر ڈالنے سے آنسو گیس کی جلن کم ہونے میں مدد ملتی ہے۔
ان مظاہروں کے بڑھنے اور اتنی تعداد میں لوگوں کی شرکت کے پیچھے سوشل میڈیا کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔
جارج فلائیڈ کے ساتھ پولیس برتاؤ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی وجہ سے ہی اتنی بڑی تعداد میں شہری نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر ممالک میں بھی باہر نکلے۔
واقعے کے فوراً بعد ہی انسٹاگرام پر ’جسٹس فار جارج این وائے سی’ کے نام سے اکاؤنٹ بن گیا جس کے اب ایک لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ نیو یارک میں ہونے والے تمام مظاہروں کی تفصیلات اسی اکاؤنٹ پر شائع کی جاتی ہیں۔ اس اکاؤنٹ پر کہا گیا ہے کہ جو لوگ مظاہرے میں شریک نہیں ہو سکتے وہ اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے نعروں میں حصہ لیں۔
اسی طرح سے ریاست مینیسوٹا کے شہر منی ایپلس کے رہائشی کا ذاتی اکاؤنٹ مظاہروں سے متعلق تمام تر معلومات کا مرکز بن گیا ہے۔ جارج فلائید کی ہلاکت کا واقعہ منی ایپلس میں ہی پیش آیا تھا اور مظاہروں کا آغاز بھی یہیں سے ہواتھا جو پھر دیگر شہروں میں پھیل گئے۔

نوجوان کی ایک بڑی تعداد ان مظاہروں میں شریک ہے۔ (فوٹو اے ایف پی)

امریکی شہر لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والوں کے ایسے متعدد اکاؤنٹس بنے ہوئے ہیں جن کے ذریعے وہ گرفتار یا زخمی ہونے والوں کو قانونی چارہ جوئی کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں۔
سیاست دان، شوبز سے تعلق رکھنے والے اور دیگر نامور شخصیات اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لاکھوں فالوورز کی مدد کے لیے معلومات فراہم کر رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک ممبر کانگریس الیگزینڈریا اوکاشیو کورٹیز اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے لوگوں کو آگہی فراہم کر رہی ہیں کہ مظاہروں میں شرکت کے لیے کس قسم کا لباس پہننا چاہیے تاکہ تشدد کی صورت میں اپنی حفاظت ممکن ہو سکے۔
انہوں نے مظاہرین کو تاکید کی کہ احتجاج میں شرکت کرتے ہوئے اپنے بال باندھیں، کانٹیکٹ لینز اور جیولری پہننے سے گریز کریں اور معمولی کھانے پینے کی چیز ساتھ رکھیں۔

شیئر: