Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا سے ہلاک مسلمانوں کی تدفین کے لیے جگہ کم

مصطفیٰ کی اہلیہ کا انتقال کورونا وائرس کی وجہ سے ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
دیگر کمیونٹیز کی طرح اٹلی کی مسلم کمیونٹی نے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے بہت سی اموات کا سامنا کیا۔
لیکن مردے دفنانے کے لیے جگہ کی قلت نے اٹلی کے مسلمانوں کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے۔ 
وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیے جگہ کم پڑنے  کے بعد اٹلی کے امام اور مسلمان کمیونٹی مزید قبرستانوں کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔
ان کے مطابق یا تو مزید قبرستان دیے جائیں یا موجودہ قبرستانوں میں اضافی جگہ دی جائے کیونکہ بڑی تعداد میں مسلمان اب ٹلی میں ہی دفن ہونا چاہتے ہیں۔
میلان کے سیستو مسجد کے امام عبداللہ تچینا نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ہم وبا کی تکلیف سے گزرے ہیں۔ 
’ یہ تکلیف اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کچھ خاندانوں کو ان کے پیاروں کے دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ نہیں ملتی، اس لیے کہ ٹاؤن کے قبرستانوں میں مسلمانوں کے لیے جگہ مخصوص نہیں۔‘
اٹلی میں کورونا وائرس سے 34 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں شمالی صنعتی علاقے میں ہوئی ہیں۔
کئی مہینوں سے پروازیں بھی بند ہیں جس کی وجہ سے کورونا وائرس یا دیگر بیماریوں سے ہلاک ہونے والے لوگوں کو ان کے آبائی ممالک نہیں لے جایا جا سکا۔
وبا سے پہلے لوگ اپنے پیاروں کو اپنے ممالک ہی میں دفناتے تھے۔

میلان کے سیستو مسجد کے امام عبداللہ تچیناکے مطابق تدفین کے حوالے سے مسلمان وبا کے دوران تکلیف سے گزرے ہیں (فوٹو: اےا یف پی)

یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں تدفین کے لیے درخواستوں میں اضافہ ہوا اور یہ بات بھی محسوس کی گئی کہ مسلمانوں کی تدفین کے لیے ملک میں مختص جگہ کم پڑ گئی ہے۔
اٹلی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 2.6 ملین ہے جو کہ ملک کی کل آبادی کا 4.3 فیصد ہے۔ وبا میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار دستیاب نہیں۔
میلان کے نواح میں لگ بھگ 50 برس کے مصطفیٰ رومن کیتھولک قبرستان میں مسلمانوں کے لیے مخصوص حصے میں اپنی اہلیہ کی قبر کے سامنے بیٹھے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے ان کی 55 برس کی اہلیہ کا انتقال سات اپریل کو ہوا۔  مصطفیٰ کے مطابق یہ اللہ کی مرضی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ کو میلان کے ایک ہسپتال میں کورونا وائرس ہوا، جہاں ان کو ٹانگ کے ایک معمولی آپریشن کے لیے داخل کر وایا گیا تھا۔

مسلمانوں کے لیے اٹلی کے بعض قبرستانوں میں جگہ مختص ہوئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

مصطفیٰ گذشتہ 32 برس سے اٹلی میں رہ رہے ہیں، ان کی پیدائش مراکش میں ہوئی۔
مصطفیٰ کی اہلیہ کی قبر پر کوئی کتبہ نہیں، کورونا وائرس سے پہلے مرنے والے افراد کی قبریں زیادہ نمایاں ہیں، ان کے کناروں کو پختہ کیا گیا ہے جبکہ سنگ مرمر کے کتبوں پر چاند کو بھی کندہ کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کے دنوں میں کئی مسلمانوں نے یا تو اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیے طویل سفر طے کیے، یا ان کو کئی کئی دن تک مردہ خانوں میں رکھا اور یا جگہ ڈھونڈتے تک ان کو گھروں میں رکھا۔
اسلامی روایات کے مطابق مردوں کو جلد از جلد دفنانا ہوتا ہے۔ ترجیحی بنیادوں پر 24 گھنٹے کے اندر مردے کی تدفین ہونی چاہیے۔
شمالی شہر برشسیا کے قریب پسونئے کے علاقے میں حرا ابراہیم نے اپنی والدہ کی جسد خاکی کو دس دن سے زیادہ گھر میں رکھا۔ لا ریپبلیکا اخبار کے مطابق ان کی والدہ کا انتقال کورونا وائرس کی وجہ سے ہوا۔
اخبار کے مطابق بہت سارے مسلمان خاندانوں نے اس بحران میں اس جیسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
میلان کے سیستو مسجد کے امام عبداللہ تچینا کا کہنا ہے کہ مسئلہ اب بھی برقرار ہے کیونکہ گذشتہ ہفتے میلان میں فوت ہونے والے ایک مسلمان کو 50 کلومیٹر دور دفنایا گیا۔

میلان کے اسلامک سینٹر کے امام کا کہنا ہے کہ آج کی نوجوان مسلمان نسل خود کو اطالوی شہری ہی سمجھتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

میلان کے اسلامک سینٹر کے امام کے مطابق بہت سارے مسلمان خاندانوں کو برشسیا اور بیرگمو میں اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیے بہت انتظار کرنا پڑا تاہم اٹلی کے حکام کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے تعاون کیا گیا۔
برشسیا اور بیرگمو کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ فاصلہ کتنا ہے، جہاں جگہ ملتی گئی ہم وہاں گئے۔
میلان کے اسلامک سینٹر کے مطابق بڑی عمر کے افراد چاہتے ہیں کہ ان کی تدفین اپنے آبائی ملکوں میں ہو لیکن نوجوان مسلمان اٹلی دفن ہونا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اطالوی شہری ہیں۔

شیئر: