Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جعلی لائسنس‘ والے پائلٹ جہاز اڑاتے رہے؟

پی آئی اے ترجمان کے مطابق پائلٹس کا سیمولیٹر ٹیسٹ بینکاک میں ہوتا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ ملک میں موجود 860  ایکٹیو کمرشل پائلٹس میں سے 262 کے لائسنس مشکوک ہیں کیونکہ انہوں نے سول ایوی ایشن سے لائسنس لینے کے لیے اپنی جگہ کسی اور سے امتحان دلوایا۔
اس انکشاف کے بعد ہوائی سفر کرنے والے مسافروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور ملک میں سول ایوی ایشن اور ایئر لائن کی طرف سے پائلٹس کے معیار کے حوالے سے سوالات پیدا ہو گئے۔
 اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے  پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بتایا ہے کہ قومی ایئر لائن نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے ان تمام 150 پائلٹس کو گروانڈ کر دے جن کے نام جعلی لائسنس کی لسٹ میں شامل ہوں۔
یہ 11 نومبر 2018 کی بات ہے جب پی آئی اے کا ایک اے ٹی آر طیارہ پنجگور ایئرپورٹ پر رن وے سے اتر گیا۔
خوش قسمتی سے جہاز کے اس حادثے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہ ہوا تاہم جب معلوم ہوا کہ جہاز کے پائلٹ نے انتہائی بچگانہ غلطیاں کی تھیں جن کی توقع ایک ٹرینی پائلٹ سے بھی نہیں کی جا سکتی تو پی آئی اے نے حادثے کی انکوائری کروائی۔ پی آئی اے کی انکوائری میں پتا چلا کہ پائلٹ کا لائسنس مشکوک ہے۔ 
لائسنس جاری کرنے والی اتھارٹی یعنی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رابطہ کیا گیا اور اس کے بعد پی آئی اے نے براہ راست وزیراعظم عمران خان تک رپورٹ پہنچائی۔
وزیراعظم کی ہدایت پر ایک اعلی سطح کی انکوائری شروع کی گئی جس کو 15 ماہ تک خفیہ رکھا گیا۔ انکوائری میں سول ایوی ایشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار اور چند دیگر افسران شریک تھے۔ اس انکوائری میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے 262 پائلٹس ہیں جن کے لائسنس مشکوک ہیں اور ان میں سے 150 کا تعلق پی آئی اے سے تھا۔

ایوی ایشن ماہرین کے مطابق جہاز اڑانے سے قبل پائلٹس کو سینیئر کے ساتھ کئی فلائٹس پر جانا پڑتا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

 پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے اردو نیوز کو بتایا کہ بدھ کو قومی ایئر لائن نے اپنے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے لسٹ ملنے پر ایئرلائن اپنے تمام 150 پائلٹس کو فضائی آپریشن سے روک کر گراونڈ کر دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے پاس 420 کے قریب پائلٹس ہیں جن میں سے 150 کو گراؤنڈ کرنے سے ایئرلائن کو اپنے آپریشن میں بھی مشکلات پیش آئیں گی۔
اردو نیوز کے سوال پر عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ کچھ فلائٹس کو کینسل بھی کرنا پڑسکتا ہے مگر مشکوک پائلٹس کو اڑنے نہیں دیا جائے گا۔
نوکری سے نکالے جانے کے سوال پر پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ چونکہ پائلٹس کو لائسنس حکومت نے جاری کیا ہے اسے صرف کابینہ ہی کینسل کر سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مشکوک لائسنس والے پائلٹس عشروں سے جہاز اڑا رہے تھے اور کچھ کے لائسنس سال 1995 میں جاری ہوئے تھے۔ مشکوک لائسنس جاری کرنے کا عرصہ سنہ 1995 سے 2013 تک کا تھا۔
پی آئی اے ترجمان کے مطابق مشکوک پائلٹس کے جعلی لائسنس اس طرح پکڑے گئے کہ انہوں نے خفیہ انکوائری اور ویری فیکیشن کے عمل کے دوران اپنے تمام ڈاکومنٹس پی آئی اے کو جمع کروائے۔ جب ان کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ لائسنس کے اوپر جو ٹیسٹ کی تاریخ لکھی ہوئی تھی اس  دن یا تو مذکورہ پائلٹ کمرشل  جہاز اڑا رہے تھے یا بیرون ملک تھے یا اس ٹیسٹ کے مقام پر ہی نہیں تھے۔

پائلٹس کو لائسنس کیسے جاری کیا جاتا ہے؟

 عبداللہ حفیظ کے مطابق ایک پائلٹ کے لیے موجود دور میں بنیادی کوالیفیکیشن اے لیول یا ایف ایس اسی ہوتی ہے جس کے بعد اسے فلائنگ سکول میں چھ ماہ تک تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے اور جہاز اڑانے کے 200 گھنٹے پورے کرنا ہوتے ہیں۔
ترجمان کے مطابق یہ اہلیت ثابت کرنے کے بعد انہیں کمرشل پائلٹ لائسنس جاری کیا جاتا ہے جسے (سی پی ایل) کہتے ہیں۔ اس کے بعد اگر وہ کسی ایئرلائن میں نوکری کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو انہیں ایئرلائن ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس یعنی (اے ٹی پی ایل) حاصل کرنا پڑتا ہے وہ بھی سول ایوی ایشن ہی جاری کرتی ہے اس کے بعد ہر جہاز کے لیے ٹائپ ریٹنگ لینی ہوتی ہے جو سیمولیٹر (یعنی جہاز جیسی کیفیت والی مشین) پر ٹیسٹ لے کر اور جہاز اڑا کر حاصل کی جاتی ہے۔
مشکوک پائلٹس کے بنیادی لائسنس میں ہی مسئلہ تھا اور وزیر ہوابازی کے مطابق انہوں نے امتحان خود پاس نہیں کیا تھا۔  

کراچی میں حادثے کا شکار ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کی ابتدائی انکوائری رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

تحریری امتحان میں گڑ بڑ کرنے والوں کو بھی جہاز اڑانا آتا ہے

40 سال فلائنگ کا تجربہ رکھنے والے سول ایوی ایشن کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ عام تاثر کے برعکس جن 264 پائلٹس کے لائسنس جعلی قرار دیے گئے ہیں ان کو جہاز اڑانا آتا ہے۔ اگر انہوں نے ہیرا پھیری کی ہے تو وہ تحریری امتحان میں کی ہے تاہم ان سب کو جہاز اڑانا ضرور آتا ہے کیونکہ کوئی ایئر لائن اپنا طیارہ کسی ایسے پائلٹ کو نہیں دیتی جس کی مہارت کا امتحان سیمولیٹر پر نہ لیا گیا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہی ہے کہ ایک ڈرائیور روڈ سائن وغیرہ کے حوالے سے تحریری امتحان میں فیل ہو جائے تاہم اسے گاڑی چلانی آتی ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنہوں نے جعلی لائسنس یا سرٹیفیکیٹ لیا ان کے بارے میں معلوم ہو اہے کہ سول ایوی ایشن کے آئی ٹی کے شعبے میں ملازمین سے ملی بھگت کرکے انہوں نے کمپیوٹرائزڈ تحریری امتحان بغیر پرچہ دیے پاس کر لیا ہے مگر کمرشل جہاز چلانے والے ایسے تمام پائلٹس کو چاہے ایوی ایشن کا جنرل نالج نہ آتا ہو یہ ضرور آتا کہ طیارہ کیسے اڑانا ہے کیسے اتارنا ہے وغیرہ۔

'ایک پائلٹ کو صرف تحریری امتحان کی بنیاد پر جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی جاتی' (فوٹو: پی آئی اے ٹوئٹر)

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک مخصوص مدت کے بعد بڑے جہازوں کے پائلٹس کے لیے سیمولیٹر پر بیٹھ کر مہارت کا مظاہرہ کرکے سرٹیفیکٹ حاصل کرنا لازم ہے اور اس میں گڑ بڑ یا جعل سازی اس لیے ناممکن ہے کہ وہ سیمولیٹر پاکستان میں نہیں ہیں۔ صرف ٹرپل سیون جہاز کا سیمولیٹر کراچی میں پی آئی اے کے پاس ہے وہاں بھی سول ایوی ایشن کے انسپکٹر اور ایئرلائن کے ٹرینر کی موجودگی میں ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اب یہ ممکن ہے کہ سیمولیٹر پر مصنوعی طور پر ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کر کے پائلٹ کی مہارت کا ٹیسٹ لیا جائے جیسا کہ خراب موسم میں جہاز کیسے اڑانا ہے، ایک انجن ناکارہ ہونے پر کیسے طیارہ محفوظ لینڈ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ اور ان تمام مہارتوں کی بنیاد پر ہی سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔
ریٹائرڈ سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے جعلی لائسنس لیے انہوں نے انتہائی غیر اخلاقی کام کیا اور اپنے پیشے کی توہین کی تاہم عام لوگوں کی سمجھ کے لیے وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ایک پائلٹ کو صرف تحریری امتحان کی بنیاد پر جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس کو اڑان کے گھنٹے پیش کرنے ہوتے ہیں، عملی مہارت دکھانی ہوتی ہے کتنی ساری فلائٹس میں جونیئر کے طور پر سینیئر کے ساتھ بیٹھنا ہوتا ہے تب جا کر طیارہ اڑانے کی اجازت ملتی ہے۔

گزشتہ دس برس میں پاکستان میں چار بڑے فضائی حادثات پیش آئے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

تاہم اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سیمولیٹر پر ٹیسٹ بینکاک میں ہوتا ہے اور سول ایوی ایشن کا انسپکٹر عام طور پر اسی پائلٹ کے ساتھ جہاز پر بینکاک جاتا ہے جس کا ٹیسٹ لینا ہوتا ہے اس دوران اسے اچھے ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا ہے اور خاطر مدارت بھی کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آج تک بینکاک سے کسی پائلٹ کو سیمولیٹر ٹیسٹ میں فیل ہوتے نہیں دیکھا ہے۔

اگر کسی کا لائسنس جعلی ہے تو سول ایوی ایشن کو پکڑا جائے: پالپا

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کمرشل طیاروں کے پائلٹس کی نمائندہ تنظیم پالپا کے جنرل سیکرٹری کیپٹن عمران ناریجو کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ جن کے لائسنس جعلی ہیں ان کو بے شک نوکری سے نکال دے، پالپا کسی ایسے شخص کی حمایت نہیں کرے گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وزیر ہوابازی کو 262 کا ہندسہ کہاں سے ملا۔
’پی آئی اے نے پچھلے دو سال سے ہر پائلٹ کا شجرہ نسب چھان مارا ہے صرف چھ پائلٹس کی ڈگری جعلی نکلی تھی ان کا لائسنس کینسل ہو گیا ہے اب ہمیں نہیں معلوم کہ یہ 200 سے زائد والا فگر کہاں سے آیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے چار سو سے زائد پائلٹس ہیں، کسی کو جہاز اڑاتے 20 سال ہوئے، کسی کو 25 سال ہو گئے ہیں، اور ان کو اب یاد آیا کہ ان کے لائسنس جعلی ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو جعلی لائسنس جاری ہوا ہے تو سول ایوی ایشن کا قصور ہے ان کو پکڑا جانا چاہیے  کیونکہ ہر لائسنس صرف سول ایوی ایشن (سی اے اے)  کی منظوری سے جاری ہوتا ہے۔
کیپٹن عمران ناریجو کا کہنا تھا کہ ایک مخصوص مدت کے بعد ہر پائلٹ سول ایوی ایشن سے دوبارہ سرٹیفیکیٹ لیتا ہے اس کا میڈیکل ہوتا ہے اور سیمولیٹر ٹیسٹ ہوتا ہے تو سول ایوی ایشن نے ان کو کیوں نہیں پکڑا۔
کراچی حادثے کی رپورٹ پر ان کا کہنا تھا کہ پائلٹس کئی ہفتوں سے پیٹ رہے تھے کہ کورونا کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں مگر ان کی نہیں سنی گئی۔ اب کیا پائلٹ انسان نہیں کہ طیارے میں بیٹھ کر کورونا کی بات نہ کرے۔ ’آج 20 پائلٹس کو کورونا ہے, 50 کیبن کریو کے ممبران کو کورونا ہے تو کیا پائلٹ غلط کہہ رہے تھے۔
پالپا عہدیدار کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طیارہ رن وے سے دس میل کی دوری پر تھا تو اس کی بلندی 7500 فٹ تھی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ رن وے کے اتنے قریب اتنی بلندی پر کیسے تھا؟ کیا طیارے کا بلندی ماپنے کا سسٹم خراب تھا؟ یہ سب کو پتا ہے کہ دس میل دوری پر طیارے کی بلندی 3000 سے زائد نہیں ہونی چاہپیے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پائلٹ اسے اتنی بلندی پر رکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کرنے والی کمیٹی میں کوئی بھی کمرشل پائلٹ شامل نہیں تھا جو صورتحال کا اندازہ لگا سکتا۔

شیئر: