Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’طیارہ مُکمل فِٹ تھا، پائلٹ نے ہدایات کو نظر انداز کیا‘

پاکستان کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا ہے کہ کراچی طیارہ حادثے کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پائلٹ اور ائر ٹریفک کنٹرولر نے مروجہ طریقہ اختیار نہیں کیا جبکہ جہاز مکمل فِٹ اور آٹولینڈنگ پر لگا تھا۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثے کی ابتدائی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔ کنٹرولر نے تین بار پائلٹ کی توجہ مبذول کروائی کہ لینڈنگ نہ کریں، ایک چکر اور لگائیں۔
بدھ کو قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثے کی ابتدائی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ دوران پرواز پائلٹ اور شریک پائلٹ کے ذہنوں پر کورونا سوار تھا۔
 
'دونوں ساری گفتگو کورونا پر ہی کر رہے تھے ۔ پائلٹ کی جانب سے زیادہ خود اعتمادی دیکھنے کو ملی ۔ کنٹرولر کی کال بھی جلد بازی میں سن کر کہا کہ میں مینیج کر لوں گا۔'
پائلٹ کو کنٹرولر نے کہا کہ لینڈ نہ کریں اس نے جلدی سے کہا کہ میں مینیج کر لوں گا اور پھر کورونا پر بات شروع کر دی۔ پائلٹ کا فوکس نہیں تھا۔ جہاز آٹو لینڈنگ پر لگا ہوا تھا۔ پائلٹ نے اسے مینول پر کیا اور 40 ڈگری کے بجائے 60 ڈگری سے نیچے لایا۔
انہوں نے بتایا کہ 'ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پائلٹ نے فائنل اپروچ تک کسی تکنیکی خرابی کی نشان دہی نہیں کی تھی۔ رن وے سے دس میل کے فاصلے پر جہاز کو 2500 فٹ پہ اُڑنا چاہیے تھا، اس وقت جہاز 7220 فٹ کی بلندی پر تھا۔ یہ پہلی خلاف ورزی تھی۔'
وزیر ہوا بازی کا کہنا تھا کہ ایئر ٹریفک کنٹرولر نے تین بار پائلٹ کو بتایا کہ اونچائی زیادہ ہے اور انہیں لینڈنگ نہ کرنے اور ایک چکر مزید لگانے کو کہا۔ پائلٹ نے کنٹرولر کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔ جہاز کے لینڈنگ گیئر کھولے گئے لیکن جب جہاز پانچ میل کے فیصلے پر پہنچا تو لینڈنگ گیئر پھر اوپر کر لیے گئے۔

غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ حادثے میں 29 گھر تباہ ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

'جہاز زمین سے تین بار ٹکرایا اور رن وے پر رگڑ کھاتا رہا جس سے اس کے انجنوں کو کافی نقصان پہنچا، پھر پائلٹ نے جہاز کو دوبارہ اٹھا لیا۔'
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ جہاز جب اوپر اٹھایا گیا تو دونوں انجنز متاثر ہو چکے تھے، پائلٹ نے دوبارہ لینڈنگ کی اجازت مانگی جو اسے اپروچ دی گئی لیکن طیارہ بدقسمتی سے پھر وہاں نہ پہنچ سکا اور سویلین آبادی پر گر گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کنٹرول ٹاور کی بھی غلطی تھی، اس نے انجن کو نقصان پہنچتا دیکھ کر بھی پائلٹ کو اطلاع نہ دی۔ پائلٹ اور کنٹرولر دونوں نے مروجہ طریق کار کی خلاف ورزی کی۔ پائلٹ نے تین بار یا اللہ کہا۔۔
ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی اور دیگر افراد پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم نے 24 مئی کو موقع پر آکر بھی انکوائری کی۔

وزیر ہوابازی کے مطابق دونوں پائلٹس تجربہ کار اور طبی طور پر فِٹ تھے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ 'میں نے بدقسمت جہاز کی ریکارڈنگ اور پائلٹ کے آخری الفاظ بھی سنے ہیں۔'
'ہمارے انکوائری بورڈ کے سربراہ نے دو جون کو پیرس میں وائس ریکارڈر کو ڈی کوڈ کیا اور ڈیٹا ایگزامن کیا۔'
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'رپورٹ کے مطابق طیارہ مکمل فٹ تھا۔ سات مئی کو اس نے پہلی فلائٹ لی اور 22 مئی کو حادثے کا شکار ہوا۔ اس سے قبل اس نے چھ مرتبہ کامیاب پروازیں مکمل کی تھیں۔'
وزیر ہوا بازی کے مطابق دونوں پائلٹس تجربہ کار اور طبی طور پر فٹ تھے۔ پائلٹ نے لینڈنگ سے قبل کسی تکنیکی خرابی کی نشاندھی بھی نہیں کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 'میں نے پائلٹس کے گھر جا کر ان کے اہل خانہ سے دکھ کا بھی اظہار کیا مگر افسوس ہے پائلٹس کے فوکس نہ ہونے اور زیادہ خوداعتمادی کے باعث ہمیں نقصان ہوا۔ پائلٹس اور ایئر کنٹرول کی غلطی تھی۔ اللہ مرحومین کی مغفرت کرے مگر جو زندہ ہیں ان کا احتساب ہوگا۔'

طیارے کے حادثے میں 97 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

غلام سرور خان نے بتایا کہ حادثے میں مرنے والے 90 افراد کے اہل خانہ کو دس لاکھ روپے فی کس کے حساب سے معاضہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حدثے میں جس بچی کی زمین پر جان گئی ان کے لواحقین کو بھی معاوضہ دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حادثے کے نتیجے میں 29 گھر متاثر ہوئے، گھروں کے متاثرین اور مسافروں کو بھی مکمل معاوضہ دیا جائے گا ۔انکوائری بورڈ میں پائلٹس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ عبوری رپورٹ ہے، مکمل رپورٹ ایک سال میں پیش کر دی جائے گی۔
 انہوں نے بتایا کہ ائر بلیو اور بھوجا ایئرلائن کے حادثے میں بھی پائلٹس کی غلطیاں پائی گئیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ لاہور سے کراچی جاتے ہوئے 22 مئی کو کراچی ایئرپورٹ کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا۔

طیارہ ساز کمپنی نے بھی جہاز میں فنی خرابی کی نشاندہی نہیں کی (فوٹو: اے ایف پی)

اس حادثے میں مسافروں اور جہاز کے عملے سمیت 97 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ صرف دو افراد زندہ بچے تھے۔
پی آئی اے کے طیارے پی کے 8303 کے المناک حادثے کی ابتدائی تحقیقات میں طیارہ ساز کمپنی ایئربس نے اے 320 جہاز میں کسی قسم کی فنی خرابی نہ ہونے کا عندیہ دیا تھا اور دنیا بھر کی ایئرلائنز کو اس طرح کے جہازوں کے آپریشنز جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
دوسری طرف پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے طیارہ ساز کمپنی کی رپورٹ ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی آئی اے حکومت پاکستان کی جانب سے حتمی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کرے گی۔
یورپی طیارہ ساز کمپنی ایئربس کی جانب سے دنیا بھر کی ایئرلائنز کو لکھے گئے خط میں 22 مئی کو کراچی میں ہونے والے طیارہ حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ فراہم کر دی گئی ہے۔

سرور خان کا کہنا ہے کہ پائلٹ نے کسی فنی خرابی کا نہیں بتایا (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز کے پاس دستیاب خط کے مطابق پاکستان میں آکر تفصیلی تحقیقات کے بعد ایئربس کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ اے 320 جہاز چلانے والی کمپنیوں کو کوئی نئی سفارش نہ کی جائے۔
سول ایوی ایشن کے ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ طیارہ ساز کمپنی نے حادثے کا شکار ہونے والے جہاز میں کسی قسم کی فنی خرابی نہیں پائی۔
ماہرین کے مطابق اگر طیارہ حادثے کی تحقیقات کے دوران جہاز کے کسی حصے میں خرابی سامنے آئے تو طیارہ ساز کمپنی وہ خرابی دور کرنے تک ساری دنیا میں الرٹ جاری کر کے اس طرح کے طیاروں کو گراؤنڈ کرنے کی ہدایت کر دیتی ہے۔
غلام سرور خان نے ماضی قریب کے چار حادثات کی ابتدائی رپورٹ بھی ایوان میں پیش کی۔

وزیر ہوا بازی نے ماضی کے حادثات کی ابتدائی رپورٹ بھی پیش کی (فوٹو: اے ایف پی)

اسلام آباد میں 2010 میں ایئر بلیو کا حادثہ، دوسرا  اپریل 2012 میں اسلام آباد کے قریب بھوجھا ایئر لائن کا حادثہ، تیسرا حادثہ پی کے 605 چترال سے آتے ہوئے حویلیاں کے قریب اور چوتھا جو گلگت میں ہوا تھا، اس میں کریش لینڈنگ ہوئی تھی جس میں مسافر محفوظ رہے تھے تاہم جہاز تباہ ہو گیا۔ ان کی مکمل انکوائری رپورٹ بھی پیش کر دی جائے گی۔
وزیر ہواز بازی نے بتایا کہ چترال فلائٹ کا حادثہ خالص تکنیکی نوعیت کا تھا، پائلٹ کی غلطی نہیں تھی۔ ابھی تک اس جہاز کے انجن بنانے والی کینیڈا کی کمپنی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ اگست تک ہم اس کی رپورٹ بھی پیش کر دیں گے۔
'ایئر بلیو واقعہ فیصلے کی غلطی، پیشہ وارانہ مہارت کی کمی اور ایس او پیز کی خلاف ورزی کے باعث پیش آیا تھا۔'

سرور خان کے مطابق جعلی ڈگری والے پائلٹس کے خلاف کارروائی ہوگی  (فوٹو: سوشل میڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ پہلے حادثے میں 152 دوسرے میں 127 افراد کی جانیں گئیں۔ دونوں میں پائلٹس نے غلطی کی تھی۔
'ایمرٹس ایئر لائن اور ترکش ایئرلائن کے تین تین سو جہاز ہیں مگر کبھی ان کو حادثہ درپیش  نہیں آیا۔'
غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پائلٹس سمیت پی آئی اے ملازمین کی ڈگریاں چیک کی گئیں جن میں سے چار پائلٹس کی ڈگریاں جعلی ثابت ہوئیں۔
'سیاست دانوں کی جعلی ڈگریوں کی بات کی جاتی ہے مگر سرکاری اداروں میں بھی میرٹ نہیں دیکھا جاتا۔'
جس طرح ٹریفک حادثوں میں ڈرائیور کو سزا نہیں ملتی، یہ ہی حال پائلٹس کے معاملے پر ہے۔ پائلٹس سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے جاتے ہیں پھر اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟

وزیر ہوا بازی نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کی جائے گی (فوٹو: ٹوئٹر)

پاکستان میں مجموعی طور پر 860  ایکٹو پائلٹس ہیں۔ ہماری انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے 262 پائلٹس نے اپنی جگہ کسی اور سے امتحان دلوایا۔
'ان پائلٹس کو جعلی ڈگریاں  اور جعلی لائسنس بنوا کر دیے گئے۔ ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی؟
وزیر ہوا بازی نے کہا کہ ہم نے اس پر ایکشن شروع کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے پر 54 کیسز ایسے تھے جن میں سے 28 کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے۔ وہ لوگ عدالت چلے گئے مگر کارروائی جاری ہے۔
 'ان میں سے 18 پائلٹس کے کیسز کی سماعت ہوئی اور نو پائلٹس نے روتے روتے مان بھی لیا کہ ہم سے غلطی ہوئی معاف کر دیا جائے۔'

سرور خان کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر پائلٹس کی ڈگریاں چیک کیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ہم کسی کو معاف نہیں کر سکتے۔ ایکشن جاری ہے اور کسی کو معافی نہیں ملے گی۔ عدالتوں میں بھی کیس لڑیں گے۔ اس معاملے پر سیاست نہ کی جائے یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ یہ انکوائری مکمل آزادانہ ہے اور بلاتفریق کارروائی ہوگی۔
'وزیراعظم نے پی آئی اے کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی تشکیلِ نو کر کے اس کو سہانے ماضی کی طرف لے جانا ہے۔ ایک وقت تھا ایمرٹس اور سنگاپور ایئر لائن کی بنیاد ہم رکھ رہے تھے اور ان کے پائلٹس کو ٹریننگ بھی ہم دے رہے تھے۔' 

شیئر: