وزیر توانائی کے مطابق سعودی عرب ماحول دوست بجلی پیدا کرے گا (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب کے وزیر توانائی پرنس عبدالعزیز بن سلمان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اپنے تیل کے وسیع ذخائر کو ماحول دوست طریقے سے استعمال کرتا رہے گا۔
جمعرات کو فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرنس عبدالعزیز بن سلمان کا کہنا تھا کہ 'میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سعودی عرب ہائیڈروکاربن کے تیارکردہ ہر مالیکیول کو بہتر طریقے سے استعمال میں لائے گا۔ یہ کام ماحول کے لیے سازگار اور پائیدار طریقے سے کیا جائے گا۔'
عرب نیوز کے مطابق انہوں نے کہا کہ ' 2050 تک ہم ہائیڈروکاربن کے سب سے بڑے اور آخری تیارکنندہ ہوں گے۔'
'میں چیلنجز کو پسند کرتا ہوں اور ہم نے یہ طے کیا ہے کہ ہائیڈروکاربن کا بہتر طریقے سے استعمال کریں گے۔'
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آئیں اور دیکھیں کہ وہ ان چیلنجز کی خواہش کیسے رکھتے ہیں اور ان سے کیسے متاثر ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر توانائی پرنس عبدالعزیز بن سلمان انرجی لیڈرز کے ہمراہ 'نئی پائیدار توانائی' کے موضوع پر اظہار خیال کر رہے تھے۔ انہوں نے کورونا وائرس کے معیشت پر اثرات اور آئندہ کے چیلنجز پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک مثال قائم کرنے جا رہے ہیں اور اہم اپنی رقم وہاں دے رہے ہیں جہاں ہمارا منہ ہے۔
سعودی عرب کے مستقبل کے توانائی منصوبوں خصوصاً شمسی توانائی اور تونائی کے دیگر قابل تجدید ذرائع کے حوالے سے پرنس عبدالعزیز بن سلمان کہا کہ ان منصوبوں سے 2030 تک ملک کی بجلی کی آدھی ضروریات پوری ہوں گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ بجلی نان ہائیڈروکاربن ذرائع سے کم لاگت میں پیدا کی جائے گی اور یہ ماحول دوست ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہم معاشی استحکام اور شرح نمو کے حوالے سے کورونا وائرس کے اثرات کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس چیلنج کے باوجود ہمیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہوگا۔
سعودی عرب کے وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک دنیا میں ہائیڈرو کاربنز کے بڑے پیدا کنندگان میں شامل ہے اور آرامکو دنیا کی کسی بھی دوسری کمپنی سے زیادہ تیل پیدا کر رہی ہے۔اس تناظر میں سعودی عرب میں شمسی توانائی کے منصوبے ماحول دوست اور گرین ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔یاد
یاد رہے کہ سعودی عرب کے محکمہ شماریات کے مطابق 2019 کے دوران سعودی عرب کے تمام علاقوں کے 1.6 فیصد گھر شمسی توانائی استعمال کر رہے تھے۔