Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'لاپتہ افراد کی اصل تعداد 300 ہے'

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد بند ہونے کی وجہ سے دہشتگردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے، دہشتگرد چمن کا راستہ استعمال کرکے پاکستان آتے تھے اس لیے اب چمن سرحد پر آمد ورفت کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہے اور افغانستان اپنی سرزمین استعمال کرنے کے لیے دے رہا ہے۔
کوئٹہ میں اردو نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ضیاء اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے افغانستان سمیت دوسرے ممالک کے ساتھ سرحدیں بند ہونے کے بعد امن وامان سمیت دوسرے پہلوﺅں کا جائزہ لینے کے اجلاس ہوتے ہیں۔
'امن وامان کی صورتحال کے جائزہ کے دوران پتہ چلا کہ دہشتگردی کی شرح میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔'
صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ مزید تحقیقات کی گئیں اور پچھلے ریکارڈز کو دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ دہشتگردوں کا چمن کے راستے آنا جانا بہت زیادہ تھا۔ ہم نے بہت سے ایسے دہشتگردوں کو پکڑا ہے جو اسی راستے سے آئے تھے۔اس لیے اب پاک افغان چمن سرحد پر پیدل آمد ورفت کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ 

چمن میں پاک افغان سرحد پر آمد ورفت کا طریقہ کار تبدیل کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: روئٹرز

ان کا کہنا تھا کہ پاک افغان چمن سرحد پر اب پہلے جیسی (آزادانہ) آمد ورفت ممکن نہیں، آمد ورفت کے ضوابط پر عمل کیا جائے گا۔ پہلے کی طرح مکمل سرحد بحال کرنا ریاست اور ریاستی اداروں کے لیے مسئلہ ہے۔
'فورسز کے خدشات اورمسائل کو بھی پیش نظر رکھیں گے اور سرحد کی بندش، پیدل آمد ورفت کے طریقہ کار تبدیل ہونے کے نتیجے میں متاثر اور بے روزگار ہونے والوں کو بھی سہولیات دیں گے۔'
ضیاء لانگو نے کہا کہ متاثرہ افراد کو حکومت نے احساس پروگرام کے تحت امداد کی پیشکش کی ہے۔ ہم نے ان سے کہا ہے کہ جب تک آپ کے لیے کوئی متبادل روزگار تلاش نہیں کرتے ہم آپ کو تیس ہزار روپے مہینہ دے دیتے ہیں۔
’دوسرا ہم نے یہ آفر کی کہ ہم آپ کو ایف سی میں ملازمتیں دیں گے ۔ ہم نے یہ بھی آفر کی ہے کہ بارڈر پر جو ہم باڑ لگارہے ہیں اس کے کام میں ہم آپ کو مزدوری پر لگائیں گے ۔ ہم ان کو متبادل روزگار دے کر ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں لوگوں کو ماہانہ بیس سے تیس ہزار روپے دینے کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہوگی لیکن ہمارے وہ لوگ جن کا روزگار جارہا ہے ہم انہیں بھوک سے مرنے نہیں دیں گے ان کے لیے حکومت ضرور قربانی دے گی۔ ترقیاتی یا غیر ترقیاتی بجٹ جہاں سے بھی ہوا کٹوتی کرکے ان کو پورا کریں گے۔ 

ماضی قریب میں بلوچستان میں ایران سے ملحق سرحدی علاقوں میں بھی حملے ہوئے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

سرحدی علاقوں میں بے روزگاری بڑھنے کی صورت میں امن وامان کے مسائل میں اضافے سے متعلق سوال پر صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے ان کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی بنائی۔
کمیٹی نے چمن کا دورہ کرکے وہاں لوگوں اور سیکورٹی فورسز کو بھی سنا ہے۔ سرحدی علاقے کے تاجروں، محنت کشوں اور سیکورٹی فورسز سے بھی تجاویز لی گئی ہیں، کچھ تجاویز حکومت نے دی ہیں۔ سب کا جائزہ لے کر ہم کچھ تجاویز پر ضرور متفق ہوجائیں گے۔
'کمیٹی دہشتگردی کے پچھلے ریکارڈ، دہشتگردوں کی آمد ورفت، لوگوں کے روزگار سمیت تمام مسائل کا جائزہ لے کر مثبت تجاویز مرتب کرکے وزیراعلیٰ بلوچستان کو دے گی پھر وزیراعلیٰ آگے اس پر وفاق سے بات کریں گے۔'
ضیاء لانگو کا کہنا تھا کہ ’دہشتگردی کے پچھلے واقعات اور اس کی تفتیش کے نتیجے میں سامنے آنے والے ثبوتوں کے بعد ہم نے برملا کہا ہے کہ ہندوستان یہاں دہشتگردی کے واقعات میں براہ راست ملوث ہے اور افغانستان اپنی سرزمین بھارت کو استعمال کرنے کے لیے دے رہا ہے۔
اسی طرح مکران کی طرف (پاک ایران) سرحدوں پر بھی مشکلات کا سامنا ہے ۔ دہشتگرد ادھر واردات کرکے پھر سرحد پار جاتے ہیں۔ ابھی یہ پتہ نہیں کہ وہ وہاں (ایرانی) حکومت سے چھپ کر جاتے ہیں اور وہاں بھی فراری کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔‘
 

وزیر داخلہ کے مطابق بلوچستان میں دہشگردی کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔ فوٹو: روئٹرز

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں سٹاک ایکسچینج پر حملے کی تحقیقات میں سندھ حکومت نے ہم سے کوئی معاونت نہیں مانگی اور نہ کوئی ثبوت ہمیں دیے ہیں کہ کون ملوث ہیں۔ البتہ سیکورٹی فورسز اس کو اپنے طریقے سے دیکھ رہی ہیں کیونکہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم اکثر وارداتیں بلوچستان میں کرتی ہے اور اس کا یہاں وجود بھی ہے۔
'ہماری سیکورٹی فورسز اس پر کام کررہی ہیں ابھی تک ہم کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے، جو بھی ملوث ہوا ہم ضرور ان کا نام لیں گے۔'
وزیرداخلہ بلوچستان کا کہنا تھا کہ پہلے دہشتگرد تنظیمیں بلوچستان میں ہر جگہ وارداتیں کرتی تھیں۔ اب سیکورٹی فورسز نے ان کے نیٹ ورکس پکڑ لیے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ اب یہ آسان ہدف کو نشانہ بناتے ہیں جہاں ان کو آسانی ہوتی ہے وہاں حملے کرتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ  یہ آخری سانسیں لے رہے ہیں، ان کی حملے کرنے کی بہت کم استعداد رہ گئی ہے اور فورسز ان کی یہ استعداد بھی بہت جلد ختم کر دیں گی۔ 
 

ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ جب تک تشدد کا راستہ ترک نہیں کیا جاتا مسلح تنظیموں سے مذاکرات ممکن نہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ضیاء لانگو کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو اپوزیشن جماعتیں ہوں یا گزشتہ حکومت کسی نے صحیح طریقے سے دیکھا نہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ کا چارج سنبھالتے ہی لاپتہ افراد کی تنظیم سے بات کی ۔ان سے اعداد و شمار لیے۔
'بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں لاپتہ افراد کی اتنی بڑی تعداد بتائی ہے کہ ان کے سوا کوئی اور اس تعداد کا کبھی حوالہ ہی نہیں دیتا۔'
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین اور نہ ہی انسانی حقوق کمیشن نے اتنی تعداد بتائی ہے۔ محکمہ داخلہ اورنہ عدالت میں اتنے کیسز ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بتائی ہوئی تعداد حقیقت سے ہٹ کر ہے۔ 
'لاپتہ افراد کی حقیقی تعداد وہی ہے جو ان کے لواحقین نے بتائی ہے اور وہ تین سو کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں سے بھی سو سے زائد لوگ اپنے گھروں کو واپس آ بھی چکے ہیں باقی جلد بھی جلد آجائیں گے۔'
جلا وطن بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات سے متعلق میر ضیاء اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ حکومت ریاست ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرے۔
'اگر کوئی دہشتگردی کرے گا تو حکومت دہشتگرد سمجھ کر اس کے ساتھ مقابلہ کرے گی ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے (پرانے) موقف سے ہٹ گیا ہوں اوربلوچستان اور بلوچستان کا مسئلہ آگ، خون اور گولی سے حل نہیں ہوگا اوربات چیت سے حل ہوگا۔'
 

اختر مینگل کی جانب سے بتائے گئے لاپتہ افراد کے اعداد وشمار حقیقی نہیں: ضیا اللہ لانگو۔ فوٹو: سوشل میڈیا

انہوں نے مزید کہا کہ 'میں بات چیت کرنے کے لیے تیار ہوں تو حکومت بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ تمام مسائل کا حل مذاکرات ہے، مذاکرات کی میزپر آپ کو آ کر بیٹھنا ہی ہوگا۔'
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کے ساتھ ظلم ہوا ہے، ناراضگی کے نام پر دہشتگردی ہوئی ہے، عام لوگوں کو مارا گیا ہے۔ ریاست تو چاہتی ہے کہ یہ چیزیں ختم ہوں لیکن اس کے لیے جن لوگوں نے یہ ماحول پیدا کیا، سازگار بھی انہی کو کرنا ہوگا۔ 
'ایک ریاست ہے، اس کی ایک فوج ہے آپ اس کے ساتھ لڑ رہے ہیں ان حالات میں بات چیت تو نہیں ہوسکتی۔ ان کو پہلے جنگ بندی جیسا اقدام اٹھانا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک بیٹھے لوگ اگر مسلح تنظیموں سے تعلق تسلیم نہیں کرتے تو بھی زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوں گے۔ زمینی حقائق سب کو معلوم ہیں۔'
بلوچستان کے کوٹے پر وفاقی محکموں میں جعلی ڈومیسائل پر بھرتیوں سے متعلق ضیاء لانگو کا کہنا تھا کہ یہ بلوچستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لوگوں نے یہاں سے ڈومیسائل بنائے ہیں اور اس کے نتیجے میں وفاقی حکومت یا دوسرے صوبوں میں بلوچستان کے کوٹے پر غیر بلوچستانی لوگ آئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'وزیراعلیٰ بلوچستان اس میں خصوصی دلچسپی ہے اوران کے احکامات ہیں کہ جس ضلع میں بھی جعلی ڈومیسائل ہیں ان کو فوری منسوخ کیا جائے۔ اس پر اب دو اضلاع کی انتظامیہ نے اقدامات کئے ہیں، باقی تمام اضلاع کی انتظامیہ بھی ان کی پیروی کرے گی اور وفاقی محکموں میں جو جعلی ڈومیسائل پر بیٹھے ہیں ان کی جگہ  بلوچستان کے لوگ برسر روزگار ہوں گے۔'

شیئر: