ماہرین کے خیال میں روس کے حالیہ حملے کا مقصد الباب میں ترک افواج کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ترکی کو خبردار کرنا تھا۔
شام کی امدادی تنظیم وائٹ ہیلمٹ کی سابق رکن اور کولمبیا یونیورسٹی کی فیلو اسد حنا نے عرب نیوز کو بتایا کہ حملے کا مقصد ترکی کو واضح پیغام دینا تھا کہ وہ شام کے شہر ادلب میں جہادی تنظیموں کی عدم موجودگی کو یقینی بنائے۔
ادلب میں باغیوں کے روسی افواج پر گشت کے دوران حملوں کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ تین دن قبل 14 جولائی کو باغیوں نے ترک اور روسی افواج پر مشترکہ گشت کے دوران خودکش حملہ کیا تھا جس میں تین روسی فوجی زخمی ہوئے تھے جبکہ روس کی بکتر بند گاڑی کو نقصان بھی پہنچا۔ روس نے جوابی کارروائی میں جہادیوں کے اڈوں پر فضائی حملہ بھی کیا تھا۔
اسد حنا کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں جہادی تنظیموں پر حملے کی غرض سے ترکی بھی سرجیکل آپریشن کا آغاز کرے گا، جس کے تحت یا روس کو اجازت دی جائے گی کہ وہ ان تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائی کرے اور یا پھر مخالف جنگجو گروہوں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ جہادی تنظیموں پر حملہ کریں۔
روس اور ترکی کے درمیان ستمبر 2018 میں ہونے والے معاہدے کے تحت ترکی نے دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کی ذمہ داری لی تھی اور ادلب میں دو ہائی ویز آمد و رفت کے لیے کھولنے کا وعدہ کیا تھا۔ رواں سال مارچ میں ایک مرتبہ پھر دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ان تمام شدت پسند گروہوں کو ختم کرنے پر اتفاق ہوا تھا جن کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل دہشت گرد قرار دے چکی ہے، جن میں القاعدہ سے منسلک سب سے طاقتور جہادی گروہ حیات تحریر الشمس بھی شامل ہے۔ تب سے روس کی حکومت ترکی پر زور دے رہی ہے کہ ادلب میں تمام شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو غیر مؤثر کرے۔
استنبول سے عسکری ماہر ناوار سبان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ترکی کا روس سے ادلب میں ایم فور ہائی وے کو آمد و رفت کے لیے محفوظ کرنے کا مطالبہ ہے اور روس ادلب میں بد امنی کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔
ادلب کے شہریوں کا ترک روسی دستوں کے مشترکہ گشت کے خلاف احتجاج روز بروز بڑھ رہا ہے جو روس کے لیے باعث تشویش ہے۔
عسکری ماہر ناوار سبان کے مطابق روس حالیہ فضائی حملے سے ترکی کو پیغام دینا چاہتا تھا، شام کے تنازعے کو بنیاد بنا کر روس شام کے علاوہ بشمول لیبیا میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔