یوں تو ثمر بلور کا خاندان دہائیوں سے سیاست میں ہے لیکن وہ خود ابھی اس میدان میں نووارد ہیں۔
سیاست نے ثمر کو دیا کم ہے اور ان سے چھینا بہت زیادہ ہے۔ پہلے باپ جیسا سسر بشیر بلور اور پھر شوہر، ہارون بلور۔
انگریزی ادب میں ماسڑز کرنے اور کراچی میں پروان چڑھنے والی ثمر بلور نے آنکھ کھولتے ہی اپنے ارد گرد سیاست اور سیاسی ماحول دیکھا۔
ان کے نانا غلام اسحاق خان پاکستان کے بیشتر اعلٰی عہدوں پر فائز رہے اور ملک کی تاریخ کے مضبوط ترین صدور میں سے ایک گزرے ہیں، اور والد عرفان اللہ مروت سندھ اسمبلی کے پہلے پشتون رکن منتخب ہوئے۔
مزید پڑھیں
-
کے پی کے: احتساب کمیشن کی عدالت ختمNode ID: 374476
-
خیبرپختونخوا: تین وزیر کابینہ سے باہرNode ID: 455281
-
’عدالت دیکھے گی بی آر ٹی میں مفادات کا ٹکراؤ تو نہیں؟‘Node ID: 482741
10 جولائی 2018 تک ان کی زندگی اپنے دو بچوں کی دیکھ بھال کرنے، امور خانہ داری سنبھالنے اور بعض اوقات اپنے شوہر کے ساتھ سیاسی تقاریب میں شرکت کرنے تک محدود تھی، لیکن اسی روز پشاور میں ہونے والے ایک بم دھماکے نے ان کی یہ زندگی ہمیشہ کے لیے بدل ڈالی۔
25 جولائی 2018 کے عام انتخابات سے محض 15 روز قبل اے این پی کی انتخابی مہم کے دوران اس دھماکے میں دو درجن کے قریب افراد ہلاک ہوئے جن میں ان کے شوہر ہارون بلور بھی شامل تھے۔
دسمبر 2012 میں اسی نوعیت کے ایک دھماکے میں ہارون بلور کے والد بشیر بلور بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس طرح تقریباً ساڑھے پانچ سال کے دوران دہشت گردی نے ثمر کے خاندان کے دو سربراہ چھین لیے۔
ثمر کے لیے ایک تو اپنا شوہر کھونے کا غم تھا اور دوسرا سیاست کی وجہ سے اپنے خاندان کی تباہی کا۔ ان کے لیے اس دھچکے کو سہنا ناممکن تھا اور آج دو سال گزر جانے کے باوجود یہ دکھ ان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔

حلقے کی کمان سنبھالنے کے لیے بلور خاندان کی بیٹھک ہوئی تو قرعہ ثمر کے نام نکلا، جسے انہوں نے یہ سمجھ کر قبول کر لیا کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے اپنے شوہر ہارون بلور کی جگہ پر نمائندہ ہیں۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی کے اس اہم موڑ کو ایک جذباتی لمحے کے ساتھ ساتھ مجبوری بھی قرار دیا۔
’سیاست میں آنا ایک جذباتی فیصلہ بھی تھا اور مجبوری بھی، کیونکہ پی کے 78 کی یہ نشست بشیر بلور کی تھی جنہوں نے لگاتار پانچ مرتبہ یہ حلقہ جیتا تھا۔'
انہوں نے کہا کہ بشیر بلور کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے ہارون بلور نے یہ نشست جیتی، لیکن ہارون بلور کو راستے سے ہٹانے اور الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے انہیں بھی شہید کر دیا گیا۔

ثمر بلور کا کہنا تھا کہ جس نے بھی یہ کام کیا تھا اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ الیکشن نہ لڑیں۔ ہارون بلور کے بعد ان کے خاندان میں کوئی ایسا مرد نہیں تھا جو الیکشن میں حصہ لے سکتا۔
'لہٰذا خاندان والوں نے فیصلہ کیا کہ اس سیٹ کو خالی نہیں چھوڑا جائے گا کیونکہ اس سے ان لوگوں کے مقاصد پورے ہو جائیں گے جنہوں نے ہارون بلور کو مارا تھا۔‘
ثمر بلور نے انتخابات جیت کر نہ صرف اپنے شوہر اور ان کے خاندان کی نشست واپس لے لی بلکہ 16 سال کے دوران خیبر پختونخوا اسمبلی کی براہ راست انتخاب جیتنے والی واحد خاتون رکن بھی بن گئیں۔
لیکن یہ سب شاید ان کے لیے اتنا آسان بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اکیلی ماں ہونے کے ناطے اپنے کام دیکھنا پڑتے ہیں، بچوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ میں گھر اور سیاسی کاموں کے بیچ پھنس چکی ہوں۔

’بجٹ میں عورت کا نام تک نہیں‘
ثمر بلور کا کہنا ہے کہ ان کو زیادہ مشکل خاتون ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپوزیشن رکن ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہے۔
’اپوزیشن ایم پی اے ہونے کی وجہ سے نہ وزیراعلیٰ فنڈ دیتے ہیں اور نہ ہی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کو فنڈز ملتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ خواتین ارکان کو سرکاری اجلاسوں میں بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔ موجودہ بجٹ میں خواتین کے لیے کوئی بھی فنڈ پاس نہیں ہوا بلکہ پورے بجٹ میں عورت کا نام تک نہیں۔‘
’اے این پی متروک ہوئی ہے نہ کرپٹ‘
ثمر بلور کی جماعت ’اے این پی‘ دہائیوں پرانی ہے اور تنازعات کا شکار بھی رہی ہے۔ اب اس جماعت نے ثمر کو اپنا ترجمان بھی مقرر کر دیا ہے اور ان کی صلاحیتوں کے ذریعے کامیابیوں کی داستانیں رقم کرنا چاہتی ہے، لیکن کیا ثمر کے پاس اے این پی واحد چوائس تھی؟

ثمر بلور کہتی ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی متروک پارٹی نہیں بنی ہے، ہارون بلور کی شہادت کے بعد مجھے بہت سی اپوزیشن جماعتوں سے پیش کش ہوئی تھی کہ ان کے ساتھ شامل ہو جاؤں لیکن میں نے عوامی نیشنل پارٹی میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ میری اپنی پارٹی تھی۔ '
ثمر اے این پی کے اندرونی اختلافات کو غیر حقیقی قرار دیتی ہیں۔
’جن لوگوں کو پارٹی عہدوں سے تبدیل کیا گیا ہے یا ہٹایا گیا ہے تو انہوں نے پارٹی نہیں چھوڑی بلکہ صرف عہدے سے ہٹ گئے ہیں، وہ لوگ اب بھی پارٹی کا حصہ ہیں۔ یہ سیاسی معاملات میں ہوتا رہتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بیگم نسیم ولی خان جن کو سب بی بی کہتے ہیں اور وہ پارٹی کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کی ایک بہترین صدر رہ چکی ہیں ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں تک خاندانی مسائل ہیں تو اس کے بارے میں بات کرنا اور ان کو سیاست کا رنگ دینا مناسب نہیں ہے۔‘
