کورونا کی عالمی وبا کے باعث خلیجی ممالک میں بے روزگار ہونے والے ہزاروں پاکستانی عیدالاضحیٰ پر بھی وطن واپس نہیں پہنچ سکے۔ بہت سے پاکستانیوں کے پاس ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں جبکہ بیشتر کو شکایت ہے کہ ان کو پی آئی اے کا ٹکٹ دستیاب نہیں ہوسکا۔
کورونا وبا کے بعد سے حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ایک ہزار 85 خصوصی پروازوں کے ذریعے دو لاکھ 50 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو وطن واپس لایا گیا ہے جن میں اکثریت ان ورکرز کی ہے جن کی نوکریاں یا تو ختم ہو گئی ہیں یا پھر ان کی کمپنیوں نے ان کو رخصت دے دی ہے۔
مزید پڑھیں
-
کویت میں ملازمت: ’بیرون ملک پاکستانی شارٹ لسٹ‘Node ID: 492416
-
’بیرون ملک ملازمت کے لیے سب کچھ لٹا چکا ہوں‘Node ID: 494051
-
بیرون مملکت موجود غیرملکیوں کے اقاموں میں توسیعNode ID: 495056
وزارت سمندر پار پاکستانیز کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 21 جون سے 8 جولائی کے درمیان ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو وطن واپس لایا گیا جبکہ اس سے قبل یکم اپریل سے 20 جون کے دوران دو لاکھ 42 ہزار سے زائد پاکستانی وطن واپس پہنچے تھے۔
اس کے باوجود 47 ہزار رجسٹرڈ اور کم و بیش اتنے ہی غیر رجسٹرڈ افراد ہیں جن کی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں اور وہ وطن واپس آنا چاہتے ہیں لیکن ان کو طرح طرح کے مسائل درپیش ہیں جس کی وجہ سے وہ یہ عید کسم پرسی کی حالت میں دیار غیر میں منانے پر مجبور ہوں گے۔
اردو نیوز نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے بات کی ہے جنہوں نے اپنے حالات سے آگاہ کیا ہے۔
سعودی عرب میں مقیم نور احمد نے بتایا کہ وہ ریاض میں مقیم ہیں۔ ’وطن واپسی کے لیے کوشش کے باوجود ٹکٹ نہیں مل رہا۔ جہاں بھی جائیں جس سے بھی رابطہ کریں وہ ریفرنس مانگتا ہے۔ پی آئی اے کے ٹکٹ بلیک میں مل رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’معمول کے مطابق یک طرفہ ٹکٹ ایک ہزار ریال کا مل جاتا تھا اب دو ہزار ریال میں بھی نہیں مل رہا۔ یہ تو وہ قیمت ہے جو پی آئی اے وصول کرتا ہے لیکن ایجنٹس یہی ٹکٹ تین ہزار ریال یعنی ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد پاکستانی روپے میں بیچتے ہیں۔‘
سعودی عرب ہی میں مقیم ایک اور شہری محمد سعید جو کہ عمر رسیدہ ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کا خروج لگ چکا ہے۔ ’ایمبیسی میں بہت دفعہ کوشش کی، ٹکٹ نہیں ملا۔ پی آئی اے والوں سے رابطہ کرنے کا کہا جاتا ہے لیکن وہ کہیں بھی ٹکٹ نہیں دیتے۔ مجبوراً پاکستان میں اپنے خاندان سے کہا ہے کہ وہ ٹکٹ کا بندوبست کرکے دیں۔ معلوم ہوا ہے کہ وہاں بھی ٹکٹ ایجنٹس ایک لاکھ دس ہزار روپے مانگ رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’میرے کیمپ کے بہت سے ساتھی صرف اس وجہ سے پاکستان نہیں جا پا رہے کہ ان کے پاس ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔‘

دوسری جانب متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں میں سے بہت سے افراد کے اقامے بھی ختم ہو چکے ہیں اور ارباب (کمپنی مالک) اقامہ کی تجدید اس لیے نہیں کروا رہے کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ کام دوبارہ کب شروع ہوگا۔
بلال احمد ڈیڑھ سال پہلے ایک کنسٹرکشن کمپنی میں لیبر کے ویزہ پر دبئی آئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ’'میرے اقامہ کے ابھی چھ ماہ رہتے تھے تو کورونا کی وبا آ گئی۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام بزنس رک گئے۔ ہم جو کماتے ہیں وہ اپنے اہل خانہ کو بجھوا دیتے تھے۔ اب واپس کیسے جائیں جبکہ کمپنی بھی پیسے نہیں دے رہی کہ ٹکٹ خرید سکیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب میرے پاس اور میرے ساتھیوں کے پاس واپسی کا ٹکٹ تو کیا کھانے اور رہائش کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ ہم واپس اپنے ملک جانا چاہتے ہیں۔ عید کا موقع ہے۔ میرے ماں باپ اور بیوی بچے انتظار کررہے ہیں۔‘

محمد سلیم جو کہ دبئی میں ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں ٹیکسی اپنی ملکیت نہیں ہوتی۔ دو تین بڑی کمپنیوں کے پاس ڈرائیورنگ کریں تو گزارا ہوتا ہے اور کمیشن کی صورت میں تنخواہ ملتی ہے۔ جس وقت آپ گاڑی نہیں چلاتے کمپنی آپ کو تنخواہ نہیں دیتی۔ ‘
ان کے مطابق ’کورونا میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹیکسی کا کام تو مکمل طور پر بند ہے۔ جس کی وجہ سے ٹیکسی ڈرائیور مشکلات کا شکار ہیں۔ واپس کی خواہش ہے لیکن کمپنیاں اتنے ورکرز کو ٹکٹ دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہیں۔ چھ ماہ سے کام بند ہونے کی وجہ سے ہماری تمام جمع پونجی ختم ہوچکی ہے۔‘
دوسری جانب قطر میں موجود پاکستانیوں کے حالات زیادہ خراب ہیں۔ اشتیاق احمد دوحہ میں ایسے علاقے میں گروسری سٹور چلاتے ہیں جہاں بہت سے لیبر کیمپ ہیں۔ ان کے زیادہ تر گاہک عام ورکرز ہیں، جو ان سے ادھار پر چیزیں لیتے ہیں اور مہینے کے آخر پر جب ان کو تنخواہ ملتی تو ادائیگی کرتے ہیں۔
