حسن شہریار کا شمار پاکستان کے معروف ترین ڈیزائنرز میں ہوتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
نامور فیشن ڈیزائنر حسن شہریار یاسین کا کہنا ہے کہ وہ سپورٹ تو ہر ڈیزائنر کو کرتے ہیں لیکن جوڑا اپنا بنایا ہوا ہی زیب تن کرتے ہیں، اس عید پر بھی انہوں نے اپنا تیار کردہ جوڑا ہی پہنا ہے۔
’ایچ ایس وائے‘ کے نام سے جانے والے ڈیزائنر نے اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر صورت میں عید بھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔
’حالانکہ کورونا ہے اور میرے والدین بھی بیمار ہیں لیکن اس کے باوجود عید ضرور مناﺅں گا امی کو جوڑا لے کر دوں گا چاہے وہ بیماری کی وجہ سے پہن سکیں یا نہیں۔‘
حس شہریار نے بتایا کہ وہ رواں سال جنوری سے لے کر اب تک نو کلیکشنز مارکیٹ میں لا چکے ہیں۔
’ایک وقت میں چھ چھ کلیکشنز بنا رہا ہوتا ہوں، اس سال کے لیے متعارف کروانے والی تمام کلیکشنز پر کام کر چکا ہوں، اب اگلے سال مارچ کے لیے کام شروع کر رکھا ہے۔‘
عید کے موقع پر حسن شہریار نے مردوں اور عورتوں کے لیے بھی کرتے متعارف کروائے، اس کے علاوہ حال ہی میں انہوں نے برائیڈل کلیکشن بھی متعارف کروائی۔
حسن شہریار نے حالیہ متعارف ہونے والی کلیکشنز کے بارے میں بتایا کہ یہ صرف عید پر ہی نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی پہنی جا سکتی ہیں۔
’میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک کی پسند نہ پسند کا احترام کیا جا نا چاہیے۔ اب کچھ لڑکے مذہب یا اپنی عادت کی وجہ سے ریشم پہننا پسند نہیں کرتے اس لیے میں ان کی پسند کو بھی مد نظر رکھتا ہوں، ایسی چیز بناتا ہوں جو سب پہن سکیں۔‘
’ڈیزائنر جب بھی کوئی کلیکشن تیار کرتا ہے تو کسی نہ کسی چیز سے متعارف ضرور ہوتا ہے۔ میں نے مردوں کی جو کلیکشن بنائی ہے اس کے لیے میں سپین میں موجود مسجد الحمراء میں لگی ٹائلز سے متاثر ہوا، اسی طرح ویمن کلیکشن کے لیے میں صوفیہ اور الحمراء مسجد سے متاثر ہوا۔
حسن شہریار کا کہنا تھا کوئی بھی برائیڈل آرڈور لیتے وقت وہ نہ صرف دلہن بلکہ ان کے گھر والوں کی بھی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا جوڑا ڈیزائن کرتے ہیں جو سب کی پسند کے مطابق ہو۔
ایک سوال کے جواب میں حسن شہریار نے کہا کہ وہ بڑی کلیکشن صرف فیشن ویک کے لیے کرتے ہیں۔
’دن رات کام کرنے پر یقین رکھتا ہوں، لوگ جب تک عزت دیتے رہیں گے میں ان کے لیے یونہی محنت اور لگن سے کام کرتا رہوں گا۔‘
حسن شہریار کے مطابق عورتوں کے کپڑوں کی طرح مردوں کے ملبوسات میں بھی اسی طرح تجربات کیے جا سکتے ہیں۔
’جو لڑکا سوٹ بنوا رہا ہو اس کے پاس بھی بہت ساری چوائسز ہوتی ہیں۔ پندرہ طرح کے تو پاکٹ کے، دس طرح کے کالر کے ڈیزائن ہوتے ہیں۔ صرف کُرتے کو ہی لے لیں تو اس پر دو طرح کے کالر اور چار طرح کے کف ہوسکتے ہیں، شاید عورتوں کو اس لیے یہ چیزیں نظر نہیں آتیں کیونکہ وہ اپنے علاوہ کسی کو دیکھ ہی نہیں رہی ہوتیں۔
حسن شہریار نے مزید کہا کہ کورونا کی صورتحال کے باعث اکثر کلائنٹ پریشان ہیں، ایسے میں ان کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے انہیں گائیڈ کرنا چاہیے۔
’یہ وقت فائدہ اٹھانے کا نہیں ہے، بلکہ ان کی جیب کے مطابق ان کی مدد کرنے کا ہے۔ میرے لوگ پچیس سال سے میرا ساتھ دے رہے ہیں تو یہ وقت ہے کہ میں ان کا ساتھ دوں۔ عموماً میں سیلز بہت کم لگاتا ہوں لیکن اس مرتبہ میں نے سیل بھی لگائی ہے۔‘
برائیڈل کلیکشنز میں کیسے ٹرینڈز چل رہے ہیں، اس سوال کے جواب میں حسن شہریار نے کہا کہ ہم اپنے کلچر اور ٹریڈیشن کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں، روایتی کام اور ٹانکوں کا استعمال زیادہ کیا جا رہا ہے۔
’برائیڈل جوڑوں کی تیاری میں اپنے کلچر کو واپس لانے کے لیے محنت کر رہا ہوں، جس کی جھلک آپ کو میری حال ہی میں متعارف کردہ برائیڈل کلیکشن میں بھی نظر آسکتی ہے۔ میں نے روایتی ٹانکے اور کام کے علاوہ پاکستان میں جتنے بھی سٹونز ہیں ان کا استعمال کیا ہے۔‘
’کچھ عرصہ پہلے تک لوگ کام کے لحاظ سے ایسا کام کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ جن کو دیکھ کر لگے کہ وہ انٹرنیشنل لیول کا کام کر رہے ہیں، لیکن میں اپنے کلچر کو پرموٹ کرنے پر ڈٹا رہا، ہمیں باہر کے کلچر کو پرموٹ کرنے کے بجائے ان لوگوں کو اپنے کلچر کی چیزیں زیب تن کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ فیشن انڈسٹری پر زیادہ تنقید نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ اس فیلڈ میں بہت سارے کاپی کیٹس ہیں اور ایسے لوگوں کا شمار فیشن انڈسٹری میں نہیں کیا جا سکتا۔
’فیشن انڈستری کے گنے چنے نام ہیں جن میں عمر سعید، ثنا سفیناز، فائزہ سمیع، منٹو کاظمی، کامیار روکنی وغیرہ شامل ہیں جو اصل میں فیشن انڈسٹری کا حصہ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں کونسی ماڈل ان کے ملبوسات کو ریمپ پر زبردست طریقے سے کیری کرتی ہیں، حسن شہریار نے کہا کہ بات ملبوسات کو کیری کرنے کی نہیں ہے بلکہ عزت اور اخلاق کی ہے۔
’میری سب ماڈلز کے ساتھ اچھی دوستی ہے، پیار محبت والا تعلق ہے لہٰذا وہ میرے کپڑے عزت کے ساتھ پہنتی ہیں وہ خود کیری کر کے دکھاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ میرے بھاری کپڑے پہن کر بھی ماڈل ریمپ پر نہیں ڈولتی۔‘
حس شہریار نے فیشن شوز کی کوریوگرافی چھوڑنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے میدان میں نئے آنے والوں کے لیے جگہ خالی کی ہے۔
’میں نے ایک ٹرینڈ سیٹ کر دیا ہے اب نئے آنے والے سنبھالیں جو کہ سنبھال بھی رہے ہیں۔‘