Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بولتے فیصلے !

قرآن وہ الہامی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا اور یہ تا قیامت اپنے اصل میں قائم و دائم رہے گی

 

محمد مبشر انوار

- - - - - - - - -

جغرافیائی اعتبار سے ،تحریری دساتیر کی دنیا میں امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اپنے عوام کو سب سے پہلے تحریری دستور فراہم کیا جبکہ غیر مطبوعہ دساتیر کے حوالے سے حکمران وقت کے منہ سے نکلا ہوا لفظ ہی آئین اور قانون کا حصہ بن جایا کرتا تھا۔ دوسری طرف دین کے اعتبار سے الہامی کتب اقوام کے لئے دستور کا درجہ رکھتی تھیں ۔ قرآن کریم کے نزول سے پہلے تک کی الہامی کتب میں تحریف نے ان کی حیثیت مشکوک کردی مگر قرآن وہ الہامی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا اور یہ تا قیامت اپنے اصل میں قائم و دائم رہے گی۔ الہامی کتب کے ماننے والوں کے لئے جغرافیائی حدود کی کوئی قید نہیں جبکہ انسانی ترتیب شدہ دساتیر اپنی جغرافیائی حدود اور قوم کی حد تک ہی نافذ العمل ہیں یا اس حدودمیں داخل ہونے والے دیگر ممالک کے لوگوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ان قوانین کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں وگرنہ اس ملک کو چھوڑ دیں۔ فی زمانہ تقریباً تمام ریاستیں ،انتظامی امور اور عالمی تعلقات کے حوالے سے ،تحریر شدہ دستور کی پیروی پرمتفق ہیں جبکہ دینی اعتبار سے عوام الناس کو اختیار ہے کہ وہ جس دین،فرقے یا مسلک کو چاہیں اپنائیں اور اس کی پیروی کریں لیکن اس اختیار کے باوجود انہیں رائج قوانین کا احترام لازم ہو گا،جس میں سرفہرست مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ نفرت انگیز مواد سے پرہیز لازم ہے،کسی پر اپنے اعتقادات جبراً ٹھونسنا ممنوع، دوسرے کی آزادی رائے کا احترام،امن و امان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں وغیرہ شامل ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ تاریخی اعتبار سے ، دنیا بھر کے دھتکارے ہوئے ، سزا یافتہ یا مفروروں کی پناہ گاہ کے طور پر پہچانی جاتی رہی ہے تا وقتیکہ ان ہی میں سے چند مدبران نے بھان متی کے اس کنبے کو جغرافیائی طورپر اور سوچ کے اعتبار سے ایک قوم کی صورت اکٹھا نہیں کیا۔

سترھویں صدی کے آخر میں اس کا سہرا جارج واشنگٹن کے سر بندھا ،جس کی کاوشوں سے امریکی نہ صرف جغرافیائی بلکہ سوچ کے اعتبار سے بھی ایک قوم میں ڈھل گئے اور انہیں ایک قوم بنانے میںایک دستور نے اہم کردار ادا کیاجس کے صرف7 آرٹیکلز نے مختلف ریاستوں کے لوگوں کو ایک وفاق میں بدل کر رکھ دیا، جس کے بعد جہد مسلسل نے،اس آئین کی پاسداری اور احترام نے آج امریکہ کو عالمی برادری میں ایسا نمایاں مقام عطا کیا ہے کہ ساری دنیا اپنے اہم مسائل کے حل کے لئے امریکی رہنمائی کی طلبگار دکھائی دیتی ہے۔ عالمی سطح پر اس حیثیت کے پس منظر میں در حقیقت اس آئین کا جتنا کردار ہے اس سے کہیں زیادہ کردار اس کی تشریح کرنے والی سپریم کورٹ آف امریکہ کا ہے کہ جب سے یہ آئین بنا ہے ،سپریم کورٹ آف امریکہ نے کسی بھی موقع پر نہ تو اس کی غلط تشریح کی اور نہ ہی کسی حکمران کے سامنے جھکی،نہ کسی کے جارحانہ عزائم اسے ڈرا سکے اور نہ ہی کسی کی خواہشات کے سامنے سرنگوں ہوئی۔ آئین نے جو کردار سپریم کورٹ آف امریکہ کو تفویض کیا،سپریم کورٹ نے اس کی تعمیل میں کسی رکاوٹ کو آڑے نہ آنے دیا،جہاں بھی کسی شہری نے فریاد کی، ججز نے آئین کی روح کے مطابق فیصلہ صادر کیا،کسی حکمران کو نہ تو شہنشاہ بننے کی اجازت دی اور نہ ہی آمر مطلق کہ جو جی آئے قانون بنائے، جہاں دل چاہے اختیارات کا ناجائز استعمال کرے،جہاں ذاتی مفادات ہوں وہاں آئین میں ترامیم کر ڈالے یا شخصی مفادات کے تابع کوئی قانون تشکیل دے سکے۔سپریم کورٹ آف امریکہ جدید دور میں عدالتی ریویو کی سب سے پہلی مثال ہے،جس نے عوامی حقوق کی نگہبانی کماحقہ کی، امریکی دستور باضابطہ طور پر 1787ء میں منظور ہوتا ہے اور 1803میں امریکی سپریم کورٹ میں ماربری بنام میڈیسن کا مقدمہ آتا ہے، جس میں نو منتخب صدر تھامس جیفرسن او ر سیکریٹری آف ا سٹیٹ جیمس میڈیسن نے سابق صدر کے مقررکردہ ولیم ماربری کو جسٹس آف پیس کا عہدہ دینے سے انکار کر دیا۔ ماربری نے اپنا مقدمہ سپریم کورٹ لے گیاجہاں جسٹس جان مارشل نے مختلف جہتی فیصلہ صادر کرتے ہوئے حکومتی زعماء ،کانگریس اور صدر کے ماورائے اختیارات کو منسوخ کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ عدالتی ریویو کے دائرہ اختیار کو بھی واضح کر دیا جس کے مطابق کانگریس کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون جو بنیادی آئین سے متصادم ہو، عدالت اسے بیک جنبش قلم منسوخ کر سکتی ہے ،جان مارشل کے اس دلیرانہ فیصلے نے آنے والے حکمرانوں کو شتر بے مہار رہنے کی بجائے ،قانون کے دائرے اور عدالتوں کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا۔ اتنی اہم ترین پیشرفت یونہی ممکن نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے سب سے اہم بات ایک طرف ججز کی ساکھ بنی تو دوسری طرف حکمرانوں کا اعتماد کہ ان کے ماورائے آئین کئے گئے اقدامات کی منسوخی کسی ذاتی چپقلش کا شاخسانہ، قطعی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کلیتاً آئین و قانون کی حکمرانی ہے۔ امریکی تقریباً اڑھائی سو سال کی تاریخ میں ایسے مواقع کئی مرتبہ آئے جہاں ججز نے جان مارشل کی پیروی کرتے ہوئے ،انتظامیہ کے انتظامی امور اور مقننہ کے ماورائے آئین قانون کو بیک جنبش قلم منسوخ کیا ہو، حال ہی میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایسی ہی سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے اپنے انتخابی منشور کے عین مطابق مسلم تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے 7مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندی کا اعلان کیا،جسے ایک مجسٹریٹ سطح اور بعد ازاں سرکٹ کورٹ نے اپیل میں اڑا کر رکھ دیا کہ ایسا کوئی بھی انتظامی حکم قابل عمل نہیں لہذا حکومت کو کوئی اختیار نہیں کہ ایسا کوئی حکم جاری کرے۔اس کے نتیجے میں پورے امریکہ میں جو ہواوہ ناقابل یقین ہے۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ بہت سے بحرانوں سے گزر کر ابھی بھی میدان عمل میں اپنی ساکھ،اپنے وقاراور اپنے حقیقی فرائض کی انجام دہی کے لئے ،اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے اور اس کا کریڈٹ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جاتا ہے جو ججوں کی تقرری کے اپنے ہی فیصلے کی بھینٹ چڑھے لیکن اب اس کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں ۔1996ء میں کیا جانے والا فیصلہ بتدریج ججز کو آئین میں دئیے گئے اختیارات کے مطابق انہیں نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی جرأت فراہم کر رہا ہے بلکہ انہیں مکمل طور پر آئین کے تحت رہتے ہوئے، انہیں صرف قانون کی تشریح پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔ ججز اور عدالتوں کا در حقیقت یہی کام ہے کہ وہ سائلین کے سماجی،سیاسی ،کاروباری رتبے کو ایک طرف رکھتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہوئے قانون کا بول بالا کریں۔گزشتہ چند سالوں میں ججز نے انتہائی دلیرانہ فیصلے کئے ہیں جس میں انہوں نے براہ راست کسی بھی ادارے سے ٹکرانے کی بجائے چند مخصوص مقدمات میں ایگزیکٹو کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ خود کو قانون کے مطابق ڈھالیں ،اپنے معاملات کو قانون کے تابع کریں وگرنہ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کریں گی۔ عدالتوں کا یہ رویہ، درحقیقت معاشرے کی بتدریج اصلاح ہے جو واقعتاً انتہائی پر اثر ہے کہ ارباب اختیار نے ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ماورائے آئین و قانون اقدامات سے رجوع کیا۔مراد یہ کہ ہمارے ارباب اختیار کو بھی بتدریج قانون کے سامنے جھکنا ہی پڑے گا کیونکہ یہ بھی ممکن نہیں ایک ہی رات میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے البتہ اب ججز کی بجائے فیصلے بولنے لگے ہیں اور امید کی جانی چاہئے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

شیئر: