Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیس بُک کی پاکستان اور انڈیا کے لیے پالیسی مختلف کیوں؟

فیس بک پر کشمیر سے متعلق مواد پوسٹ کرنے پر صارفین کو مسائل کا سامنا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق نے کہا ہے کہ فیس بک واضح کرے کہ پاکستانی اور انڈین صارفین کے لیے اس کی پالیسیوں میں فرق کیوں ہے؟
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال اگست میں انڈیا کے وادی کشمیر میں جاری مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والے پاکستانی صارفین کے اکاؤنٹس بند کیے گئے جبکہ انڈین وزیراعظم نریندرمودی کی مسلم دشمن پالیسیوں کے باوجود فیس بک کی قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ مزید پڑھیں
وفاقی وزیر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فیس بک کی انتہا پسند بی جے پی نواز پالیسیاں باعث تشویش ہیں۔ 
’کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی تشہیر پر فیس بک کو سارے قواعد یاد آجاتے ہیں، انتہا پسند بی جے پی اور ہٹلر مزاج مودی کی نفرت زدہ پالیسیاں فیس بک کو نظرنہیں آتیں۔‘
وفاقی وزیر امین الحق نے کہا کہ فیس بک انتظامیہ کی وضاحتیں اس کے عمل کے بالکل برخلاف ہیں، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ظلم کرنے والوں کی بھی مخالفت کرنی چاہیے۔
’اگر فیس بک نفرت آمیز پوسٹوں کے خلاف ہے تو نریندر مودی جیسے انسان دشمن سے نزدیکیاں کیسی؟‘

انڈیا کے پانچ شہروں میں فیس بک کے دفاتر موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے فیس بک سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں سے ناپسندیدگی کیوں ہے؟
وفاقی وزیر نے کہا کہ فیس بک کے اقدامات سے واضح ہے کہ کمپنی کے علاقائی دفاتر میں کام کرنے والے انڈین ملازمین صارفین کے حقوق کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
’انڈیا میں فیس بک کی بھاری سرمایہ کاری نے بھی اسے اخلاقی اقدار نظرانداز کرنے پر مجبور کردیا۔‘
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیجیٹل ورلڈ کی وسیع مارکیٹ بن رہا ہے، اسے نظرانداز کرنے والے نقصان میں رہیں گے۔
’پاکستانی صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا۔‘

شیئر: