پاکستان میں قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی نے گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کے خلاف خواتین صحافیوں کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انھیں اجلاس میں مدعو کیا تھا جہاں انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں تفصیلی بیانات ریکارڈ کروائے۔
کمیٹی کے اجلاس کی صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی تھی۔
اس دوران خواتین صحافیوں نے مخصوص ٹویٹس اور واٹس ایپ میسجز میں دی جانے والی ناقابل اشاعت گالیوں کے بارے میں اجلاس کو اپنے ذاتی تجربات سے آگاہ کیا۔
اب ایک طرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے خواتین صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے اٹھائے جانے والے اس قدم کو سراہا جا رہا ہے تو دوسری جانب اجلاس میں چند خواتین صحافیوں کو بلانے کے حوالے سے تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مزید پڑھیں
-
تنوشری کا می ٹو مہم پر لیکچرNode ID: 390651
-
خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف بالی وڈ سٹارز کی مہمNode ID: 493161
-
خواتین اینکرز: ’ڈیئر ٹرولز، حملے خاموش نہیں کرا سکتے‘Node ID: 498316
اس شعبے سے وابستہ دیگر خواتین اینکر پرسنز کا موقف سامنے آیا ہے کہ چند خواتین سب کی ترجمانی نہیں کر سکتیں اس لیے سب کو اپنے ذاتی تجربات بتانے کا حق دینا چاہیے تھا۔
اس حوالے سے مبشر لقمان کو انٹرویو دیتے ہوئے اینکر مہر بخاری نے کہا کہ ’جب آپ نے اس کا نام ’فیمیل جرنلسٹ آف پاکستان‘ رکھ دیا ہے تو یہ ایک بڑا موضوع بن جاتا ہے، انڈیا میں بھی اس پر بات شروع ہو جاتی ہے اور سفارتخانوں سے بھی فون آنے لگ جاتے ہیں کہ آپ کی کہانی میں کتنی صداقت ہے تو پھر اس میں سب کو شامل کرنا ضروری تھا، میرے نزدیک یہ زیادتی ہے۔ اس سے قبل ایک بڑی کال دینا چاہیے تھی تاکہ اس شعبے سے منسلک دیگر تمام خواتین بھی شرکت کرتیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک کمرے میں بیٹھ کر سب اپنی اپنی کہانی بیان کرتیں اور ایک جامع قسم کی قرارداد تیار ہوتی تاکہ وہ سیاسی اور ایجنڈے کے مطابق نہ لگتی۔ میری پوری ہمدردی اور احترام آپ کے ساتھ ہے لیکن بہتر ہوتا کہ آپ ماریہ میمن، فریحہ ادریس، جیسمین منظور اور کیمرے کے پیچھے رہ کر کام کرنے والے دیگر خواتین صحافیوں کو بھی بلاتیں۔
مہر بخاری نے مزید کہا کہ ان میں سے ایک دو خواتین نے یہ کہا کہ جمہوریت پسند خواتین صحافیوں کو زیادہ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ بڑی غلط بات ہے، اگر کل میں کہوں کہ اس سے تو تاثر یہ بن رہا ہے کہ اصل میں جو غیر جانبدار ہیں انہیں آپ متعصب کہہ رہے ہیں اور جو متعصب ہیں انہیں آپ جمہوریت پسند کہہ رہے ہیں تو پھر یہ آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا۔
"یہ 15 خواتین ہم سب صحافیوں کو represent نہیں کرتی ہیں.
کچھ خواتین نے یہ کہ دیا کہ یہ" جمہور پسند" صحافیوں کی ریزولوشن ہے..
اگر ایسے میں کل کو کہ دوں کہ biased لوگ خود کو جمہوری اور اصل میں جمہوری لوگ ہیں انہیں biased کہ رہے ہیں تو یہ انہیں اچھا نہیں لگے گا" - مہر بخاری pic.twitter.com/DXuIBWpowV— Azhar Mashwani (@MashwaniAzhar) August 20, 2020