مشرقی سعودی عرب کی معروف کمشنری الاحسا میں ان دنوں سنہرے چاولوں کی فصل اگائی جارہی ہے- یہاں کے کاشت کار سورج نکلنے سے قبل کھیتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ہلکی دھوپ پھیلنے تک چاول بونے کا کام کرتے ہیں- الاحسا کے سرخ چاول دنیا کے مہنگے ترین چاول مانے جاتے ہیں۔
العربیہ نیٹ کے مطابق الاحسا کے کاشت کار چاولوں کے پودے نرسری سے لے کر مخصوص کھیتوں میں لگاتے ہیں جو پانی سے بھرے ہوتے ہیں اور چار ماہ تک ان کھیتوں میں پانی کھڑا رہتا ہے۔
الاحسا کے کاشت کار سرخ چاول کی کاشت میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اگست میں چاولوں کے پودے پانی سے بھرے کھیتوں میں لگائے جاتے ہیں- یہاں اسے ’السنایۃ‘ کہتے ہیں۔ اس سے قبل الاحسا کے کاشت کار چاول کے بیج بوتے ہیں۔ جب ان کے پودے ابھر آتے ہیں تو انہیں پانی سے بھرے کھیتوں میں جنہیں ’الضواحی‘ کہا جاتا ہے میں منتقل کردیتے ہیں۔
چاولوں کی کاشت کا تیسرا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ان کی بالیاں نکلنے لگتی ہیں۔ انہیں کاٹ کر دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ آخری مرحلے میں بالیوں سے چاول نکال کر ذخیرہ کردیے جاتے ہیں۔
الاحسا میں ’العیش الحساوی‘ کی کھیتی باڑی کا رواج ہے۔ کاشت کے طور طریقے آباؤ اجداد اپنی اولاد کو سکھاتے جاتے ہیں۔
الاحسا میں چاول ذخیرہ کرنے کا رواج بہت پرانا ہے۔ دو برس سے زیادہ پرانا چاول عمدہ مانا جاتا ہے۔ اس سے تیار کردہ پکوان سے مہمانوں کی ضیافت کی جاتی ہے۔ اہل الاحسا یہ کام بڑے فخر و ناز سے کرتے ہیں۔
الاحسا کے ایک کلو سرخ چاول پچیس ریال میں ملتے ہیں۔ اس کی کاشت ایسی زمین میں کی جاتی ہے جہاں زیر زمین پانی بھرا ہوتا ہے۔
الاحسا کے کئی علاقے سرخ چاولوں کے لیے مشہور ہیں۔ اس سلسلےمیں القرین، البطالیۃ، جلیجۃ کے قریے اور الغویبۃ بستوں کے زرعی فارم چاولوں کی کاشت کے لیے مشہور ہیں۔
الاحسا کے چاول منفرد، صحت بخش غذا مانے جاتے ہیں۔ ان میں بیشتر غذائی عناصر موجود ہوتے ہیں۔ قدیم زمانے سے لے کر آج تک ایسے لوگوں کو جن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہوں یا جوڑوں میں تکلیف ہو اور ماں بننے والی خواتین کو الاحسا کے چاول خاص طور پر کھلائے جاتے ہیں کیونکہ ان میں وٹامن بی اور آئرن بڑی مقدار میں ہوتا ہے- اس کی مکمل خوراک ریشوں کی بھاری مقدار پر مشتمل ہوتی ہے-
سعودی فوٹو گرافر درویش آل درویش نے الاحسا میں چاولوں کے زرعی فارموں کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی ہیں جو الاحسا کے تاریخی ورثے کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔