چینی وزارت خارجہ نے ان پابندیوں کی وضاحت نہیں کی جو امریکی سٹاف ممبرز پر لگائی گئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
چینی حکام نے کہا ہے کہ چین اور ہانگ کانگ میں امریکی سفارت خانے اور اس کے قونصل خانے کے سٹاف ممبرز پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق چین نے جمعے کو کہا ہے کہ اس نے یہ پابندیاں رواں ماہ امریکہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے جواب میں لگائی ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے ان پابندیوں کی وضاحت نہیں کی گئی جو امریکی سٹاف ممبرز پر جوابی طور پر لگائی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے واشنگٹن نے کہا تھا کہ چین کے سینیئر سفارت کار امریکہ میں یونیورسٹی کیمپسز کا دورہ کرنے یا مشن کے احاطے سے باہر 50 سے زائد افراد کے ثقافتی ایونٹس کا انعقاد کرنے سے قبل امریکی محکمہ خارجہ سے منظوری حاصل کریں۔
امریکہ نے کہا تھا کہ اس کا یہ اقدام چین کی جانب سے امریکی سفارت کاروں پر لگائی گئی پابندیوں کا ردعمل ہے۔
چین اور امریکہ کے تعلقات رواں برس تیزی سے خراب ہوئے ہیں اور یہ تجارت سے لے کر کورونا کی عالمی وبا تک کے حوالے سے کیے گئے اقدامات میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا شکار ہوئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مواقعوں پر چین پر الزامات لگائے کہ کورونا وائرس کو ووہان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا۔
انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ یہ وائرس ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔‘'
ان کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس بات کے 'کافی زیادہ شواہد' موجود ہیں کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا چین کے شہر ووہان کی ایک لیبارٹری سے شروع ہوئی۔
چین نے اس سے قبل بھی امریکہ کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
چین کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'وائرس کی جڑ کا پتا لگانے چین سائنس دانوں کی بین الاقوامی کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔'
مارچ میں امریکہ نے چین کے سرکاری میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کی اپنے ملک میں تعداد کو 160 سے کم کر کے 100 کر دیا تھا۔
چین نے رواں سال تین امریکی اخبارات نیویارک ٹائمز، وال سٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرنے والے امریکی صحافیوں کو ملک سے نکال دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ چینی صحافیوں کے خلاف کسی بھی امریکی کارروائی کا جواب دیا جائے گا
چینی حکام نے کہا ہے کہ چین اور ہانگ کانگ میں امریکی سفارت خانے اور اس کے قونصل خانے کے سٹاف ممبرز پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق چین نے جمعے کو کہا ہے کہ اس نے یہ پابندیاں رواں ماہ امریکہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے جواب میں لگائی ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کی جانب سے ان پابندیوں کی وضاحت نہیں کئی گئی جو امریکی سٹاف ممبرز پر جوابی طور پر لگائی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے واشنگٹن نے کہا تھا کہ چین کے سینیئر سفارت کار امریکہ میں یونیورسٹی کیمپسز کا دورہ کرنے یا مشن کے احاطے سے باہر 50 سے زائد افراد کے ثقافتی ایونٹس کا انعقاد کرنے سے قبل امریکی محکمہ خارجہ سے منظوری حاصل کریں۔
امریکہ نے کہا تھا کہ اس کا یہ اقدام چین کی جانب سے امریکی سفارت کاروں پر لگائی گئی پابندیوں کا ردعمل ہے۔
چین اور امریکہ کے تعلقات رواں برس تیزی سے خراب ہوئے ہیں اور یہ تجارت سے لے کر کورونا کی عالمی وبا تک کے حوالے سے کیے گئے اقدامات میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا شکار ہوئے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مواقعوں پر چین پر الزامات لگائے کہ کورونا وائرس کو ووہان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا۔
انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ یہ وائرس ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔‘'
ان کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس بات کے 'کافی زیادہ شواہد' موجود ہیں کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا چین کے شہر ووہان کی ایک لیبارٹری سے شروع ہوئی۔
چین نے اس سے قبل بھی امریکہ کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔
چین کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'وائرس کی جڑ کا پتا لگانے چین سائنس دانوں کی بین الاقوامی کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔'
مارچ میں امریکہ نے چین کے سرکاری میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کی اپنے ملک میں تعداد کو 160 سے کم کر کے 100 کر دیا تھا۔
چین نے رواں سال تین امریکی اخبارات نیویارک ٹائمز، وال سٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرنے والے امریکی صحافیوں کو ملک سے نکال دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ چینی صحافیوں کے خلاف کسی بھی امریکی کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔