’ایک جامع امن معاہدے تک پہنچتے پہنچتے کئی برس لگ سکتے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سنیچر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکہ کی حمایت سے کیے جانے والے یہ مذاکرات طے شدہ پلان کے برعکس چھ ماہ کی تاخیر سے ہو رہے ہیں جس کی وجہ دونوں فریقین کے درمیان قیدیوں کی رہائی تھی۔
یہ مذاکرات 9/11 کے سانحے کے 19 برس مکمل ہونے کے اگلے روز شروع ہو رہے ہیں۔
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ’دونوں اطراف کو یہ طے کرنا چاہیے کہ تشدد کو ختم کر کے ملک کو آگے کیسے بڑھانا ہے اور لوگوں کی امیدوں پر کیسے پورا اترنا ہے۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو نومبر میں الیکشن لڑنے جا رہے ہیں، امریکہ کی سب سے لمبی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگلے سال تک تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔
اے ایف پی کے مطابق ایک جامع امن معاہدے تک پہنچتے پہنچتے کئی برس لگ سکتے ہیں اور اس کا انحصار دونوں فریقین پر ہے کہ وہ اپنے اپنے نظریے کے تحت ملک کو کس سمت لے کر جانا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف قطر کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی خصوصی دعوت پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بین الافغان مذاکرات کے اجلاس میں بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی ہے۔
پاکستان کی طرف سے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ایمبیسڈر محمد صادق دوحہ اجلاس میں شریک ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بین الافغان مذاکرات کا انعقاد افغانستان میں قیام امن کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’خوش آئند بات یہ ہے کہ آج دنیا پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہی ہے۔‘
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان قیادت کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ ان مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں مستقل اور دیرپا قیام امن کی راہ ہموار کریں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو نہ دوہرایا جائے اور افغانستان میں قیام امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ان شر پسند عناصر پر بھی نظر رکھنا ہو گی جو افغان امن عمل کو ناکام بنانے کے درپے ہیں۔‘
سنیچر کو دوحہ میں امن مذاکرات کے آغاز کے ساتھ افغان حکومت کے مرکزی مذاکرات کار عبداللہ عبد اللہ نے طالبان کے ساتھ 'انسانیت کی بنیاد پر جنگ بندی' کا کہا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق عبد اللہ عبد اللہ جو کہ ایران کے سابق وزیر ہیں اور ہائی کونسل فار نیشنل ریکنسیلی ایشن کی سربراہی کر رہے ہیں، نے کہا ہے کہ، 'ہمیں تشدد روکنا ہوگا اور جلد از جلد جنگ بندی پر اتفاق کرنا ہوگا۔'
طالبان افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر چکے ہیں اور ان کا زور اس بات پر ہو گا کہ افغانستان کو ایک اسلامی ریاست بنایا جائے۔
دوسری جانب افغان حکومت کی کوشش ہوگی کہ مغربی حمایت یافتہ سٹیٹس کو برقرار رکھا جائے جس کے تحت خواتین کو حقوق دینے کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی حقوق دیے گئے ہیں۔