امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان میں 19 برس سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں جو کچھ تعطل کے بعد گذشتہ برس دسمبر میں دوبارہ بحال ہوئے تھے۔
امریکہ کا مطالبہ رہا ہے کہ کسی بھی معاہدے پر پہنچنے سے قبل افغانستان میں جنگ بندی کی جائے۔
اس جنگ بندی کے حوالے سے افغان طالبان کے رہنماؤں کے درمیان افغانستان میں مشاورت بھی ہوئی اور ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ہائی پروفائل حملے نہیں کیے جائیں گے۔
تاہم گذشتہ دو روز سے یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے مبینہ طور پر سات سے دس دن تک جنگ بندی اور تشدد میں کمی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
مزید پڑھیں
-
’جنگ بندی کی خبریں محض افواہیں‘Node ID: 450536
-
’جنگ بندی ناممکن مگر ہائی پروفائل حملے نہیں کریں گے‘Node ID: 451051
اس بات کی تصدیق نہ طالبان اور نہ ہی امریکہ نے کی ہے، لیکن اس سلسلے میں امریکہ کے دورے کے دوران پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ جمعرات کو طالبان نے کشیدگی میں کمی پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔
دوسری طرف قطر میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے جمعرات کی رات گئے امریکہ کے ساتھ ’مثبت بات چیت‘ جاری ہونے کے حوالے سے ٹویٹ کی مگر اس میں بھی انہوں نے جنگ بندی کی تصدیق نہیں کی اوروہ ابھی تک اس پر خاموش ہیں۔
(1/1)
دافغانستان د اسلامي امارت د سیاسي مرستیال او د سیاسي دفتر دمشر محترم ملا برادر آخند تر مشرۍلاندې د اسلامي امارت مذاکراتي ټيم د ډاکتر خلیلزاد په مشرۍ د امریکې د مذاکراتي ټيم سره غونډه کړې، د توافقنامې دلاسلیک او اړوند مراسمو په هکله یې خبرې کړې دي.— Suhail Shaheen (@suhailshaheen1) January 16, 2020
کیا واقعی غیر اعلانیہ جنگ بندی ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تو افغان طالبان نے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے اور ابھی تک اس سلسلے میں ان کا موقف کیوں سامنے نہیں آیا؟
اس پر افغان امور کے ماہر اور صحافی طاہر خان کہتے ہیں ’ہو سکتا ہے وہ امریکہ کے ردعمل کے منتظر ہوں یا وہ اس بات پر مشاورت کر رہے ہوں کہ کیسے اس بات کا اعلان کیا جائے۔‘
کیا پاکستان کے وزیر خارجہ نے ویڈیو بیان دینے سے پہلے طالبان سے رابطہ کیا ہوگا؟ اس بارے میں طاہر خان کہتے ہیں کچھ کہنا مشکل ہے تاہم تمام فریق رابطے میں رہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بڑی پیشرفت ہے، گذشتہ ماہ بگرام ایئربیس پر حملے کے بعد مذاکرات میں جو رکاوٹ آئی تھی وہ ختم ہو سکتی ہے اور دونوں فریق امن معاہدے کی جانب بھی جا سکتے ہیں۔‘
افغان امور کے ماہر سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی جانب سے یہ ایک غیر ضروری بیان تھا جو اب امریکہ میں کیش کیا جائے گا۔
سمیع یوسفزئی کے مطابق ’یہ بیان طالبان کی جانب سے دیا جانا تھا نہ کہ پاکستان کی جانب سے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کے بیان کو طالبان کے حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا ’ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ بیان خود طالبان دیتے نہ کہ پاکستان کے وزیر خارجہ۔ یہ صورتحال طالبان کے لیے ایک باعث شرمندگی ہے۔ ویسے بھی طالبان پر یہ الزام ہے کہ یہ پاکستان کے آلہ کار ہیں۔‘
امریکہ بشمول افغان حکومت کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ ہے، جس کی پاکستان کی جانب سے یہ کہتے ہوئے تردید کی جاتی ہے کہ اس کا اب طالبان پر ماضی کی برعکس زیادہ اثر و رسوخ نہیں رہا ہے جبکہ طالبان کی جانب سے اس بھی تردید کی جا چکی ہے۔
دوسری جانب افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے جنگ بندی کے حوالے سے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان عوام اور حکومت ہر اس پلان کی حمایت کرے گی جس میں جنگ بندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔
’امن افغان حکومت، عوام اور ہمارے بین الاقوامي اتحادیوں کي بنیادي ترجیح ہے۔ جنگ بندی پائیدار امن پانے کا واحد راستہ ہے جس کا مطالبہ افغانستان کی حکومت اور عوام کرتے آئے ہیں۔‘
سوله دافغانستان دولت، خلکو او زموږ د بین المللي متحدینو اساسي لومړیتوب دی.تلپاتې او باعزته سولې ته درسېدو لپاره چې د افغانستان اسلامي جمهوري دولت او خلکو غوښتنه ده،داوربند تامین یوازینۍ لاره ده. هره طرحه چې اوربند په کې د اساسي ګام په توګه مطرح شي، خلکو او دولت ته به د منلو وړ وي
— Sediq Sediqqi (@SediqSediqqi) January 17, 2020جمعرات کو افغانستان کے پیس افیئرز کے وزیر سلام رحیمی نے طالبان کی جانب سے تشدد میں کمی کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افغان حکومت کے لیے ناقابل قبول ہے۔