Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں پاکستان میں، مشرف بیرون ملک ہیں‘

(تصویر : اے ایف ہی )
مختاراں مائی کی جنرل مشرف کے بارے میں دیے گئے بیان پر سوشل میڈیا پر بحث چل رہی ہے۔ مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف نے کہا تھا کہ ’خواتین ریپ کیسز کا استعمال بیرون ملک جانے کے لیے کرتی ہیں جبکہ میں اپنے  ملک میں ہوں مگر وہ باہر ہیں۔‘
مختاراں مائی ریپ کیس پر بین الاقوامی میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے 2005 میں صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ’آپ کو پاکستان کی صورتحال سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں، کینیڈا کا ویزہ یا شہریت حاصل کر کے کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو اپنا ریپ کروا لیں۔‘ 
 جہاں کئی صارفین نے ان کے اس بیان سے اتفاق کیا وہیں لوگ مختاراں مائی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ٹوئٹر صارف عشر خان نے لکھا کہ ’میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کیونکہ مختاراں مائی کو بیرون ملک سے بہت زیادہ امداد ملی ہے اور اب وہ غلط الزامات دے رہی ہیں۔‘

عفی نامی ٹوئٹر صارف نے جنرل (ر) مشرف کی تصویر شیئر کرتے ہوئے شعر لکھ کر اپنی رائے کا اظہار کیا:
 ’میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارنے والے لشکر میں ہوں‘

مختاراں مائی کو 22 جون 2002 میں مظفر گڑھ  کے گاؤں میراں والا میں پنچائیت کے حکم پر زیادتی کا نشانہ بنایا تھا کیونکہ علاقے کے بااثر مستوئی خاندان کو شبہ تھا کہ مختاراں مائی کے بھائی شکور نے ان کی لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے ہوئے تھے۔
 بیشتر سوشل میڈیا صارفین جنرل (ر) پرویز مشرف سے اس بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے بھی نظر آئے۔ ٹوئٹر صارف عثمان چیمہ نے لکھا کہ ’مشرف کو  ایسے بیان پر مختاراں مائی سے معافی مانگنی چاہیے۔‘

کچھ صارفین یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آئے کہ یہ بیان سیاق وسباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے۔
ٹوئٹر صارف محمد راشد نے اس حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے مختاراں مائی کے بیان کی تصویر شئیر کی اور لکھا کہ یہ بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے کیونکہ مشرف نے پاکستان میں خواتین کی آزادی کے بارے میں ایک مکمل باب لکھا ہے جہاں انہوں نے مختاراں مائی کی حالت زار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بنچ نے سال 2005 میں پانچ ملزمان کو بری کر دیا تھا جبکہ ایک ملزم کو عمر قید کی سزا دی تھی اور سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سال 2011 میں اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔

شیئر: