پاکستان کی عسکری اور فوجی قیادت نے حال ہی میں گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے اور اسےآئینی حثیت دینے کے معاملے پر تفیصل سے غور کیا ہے۔
اپنے خوبصورت پہاڑوں اور خوش ذائقہ پھلوں کے لیے مشہور گلگت بلتستان جغرافیائی اعتبار سے ہمیشہ ہی اہم رہا ہے جہاں پہلے دنیا کی تین بڑی سلطنتیں، برطانیہ، چین اور روس ملتے تھے اور آج بھی تین ممالک کے بارڈرز یہاں ملتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
گلگت بلتستان کے کئی منصوبے سی پیک کا حصہ بن گئےNode ID: 365896
-
گلگت بلتستان صوبہ بنے گا یا نہیں؟Node ID: 368871
-
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظNode ID: 371756
یہ علاقہ یکم نومبر 1947 کو مقامی جدوجہد کے نتیجے میں آزاد ہونے کے بعد پاکستان کا حصہ بنا اور اس وقت سے عملی طور پر پاکستان کا حصہ ہونے کے باجود ایک الگ حثییت رکھتا ہے۔
چونکہ گلگت بلتستان پاکستان کی آزادی کے وقت ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا اس لیے انڈیا کی جانب سے اسے متنازعہ علاقہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ سی پیک کا مرکزی روٹ یہاں سے گزرنے کے باعث پاکستان میں اس علاقے کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔
کیا اس خطے کی تقدیر اب بدلنے جا رہی ہے؟
گزشتہ ہفتے ایک اہم ملاقات میں پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر فوجی قیادت سے گلگت بلتستان میں ہونے والے آئندہ انتخابات اور علاقے کی آئینی حیثییت پر بات کی۔ بعد میں اس ملاقات کی تفصیلات کابینہ کے رکن شیخ رشید نے میڈیا کے ساتھ شیئر کیں تو اپوزیشن نے بھی اجلاس کے ایجنڈے اور اس میں زیر غور لائے جانے والے موضوعات پر بات کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماشیری رحمن کے مطابق میٹنگ میں گلگت بلتستان پر تفیصلی بات کی گئی۔ نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ قومی اہمیت کے اس معاملے پر پیپلز پارٹی کا موقف رہا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنایا جائے اور اسے آئینی حثییت دی جائے جیسا کہ یہاں کے عوام کا دیرینہ موقف ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں بھی گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے مطابق عسکری قیادت سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان عام علاقہ نہیں ہے بلکہ وہاں سے سی پیک کا مین روٹ گزرتا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36511/2020/000_hkg2004071349593.jpg)
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں فری الیکشن کرانا قومی مفاد میں ہے۔ کیونکہ وہاں انتخابات پر اگر سوالیہ نشان پیدا ہوا تو انڈیا کو پروپیگنڈا کا موقع ملے گا۔
سرتاج عزیز کمیٹی کی گلگت میں اصلاحات کی سفارشات
تاہم عسکری قیادت سے ملاقات پہلا موقع نہیں کہ جہاں گلگت بلتستان کی حیثیت کی تبدیلی پر غور کیا گیا ہو۔
اس سے قبل مسلم لیگ نواز کے دور میں بھی سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک نو رکنی پارلیمانی کمیٹی اکتوبر 2015 میں قائم کی گئی تھی جس نے علاقے کے لیے سیاسی اور آئینی اصلاحات کے لیے سفارشات مرتب کی تھیں۔
کمیٹی نے علاقے کی پاکستان میں عملی شمولیت کی تجویز دی تھی تاہم پاکستان میں قانونی شمولیت کی مخالفت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اس سے پاکستان کی کشمیر پر پوزیشن کمزور ہو گی۔ تاہم کمیٹی نے گلگت بلتستان کو مزید انتظامی اور معاشی اختیارات ٹرانسفر کرنے کی سفارش کی تھی۔
کمیٹی نے گلگت کی قانون سازی اسمبلی کو دیگر صوبائی اسمبلیوں کے مساوی حثیت دینے کی سفارش کی تاکہ وہ تمام امور پر قانون سازی کرسکے ماسوائے ان کے جو آئین کے آرٹیکل 142 اور فورتھ شیڈول میں جی بی کونسل کے پاس ہیں۔
اس کے علاوہ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ گلگت بلتستان کی حکومت کو قومی فورمز جیسا کہ این ایف سی۔ ایکنک، این ای سی اور دیگر پر نمائندگی دی جائے۔
اسی طرح کمیٹی نے علاقے میں سی پیک کے تحت مزید صنعتی زونز قائم کی بھی سفارش کی تاکہ مزید نوکریاں پیدا کی جا سکیں۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36511/2020/000_hkg2004071349723.jpg)
اس کے علاوہ کمیٹی نے علاقے کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے کی بھی سفارش کی تھی۔
گلگت کی تاریخی حثیت
گلگت سے تعلق رکھنے والے مصنف اور تاریخ دان شیر باز علی برچہ کے مطابق گو کہ پاکستان کی آزادی سے چند ماہ قبل گلگت بلتستان کو کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے انگریزوں سے واپس لے کر اپنا حصہ بنا لیا تھا اور وہاں اپنا گورنر بھیج دیا تھا تاہم تاریخی طور پر گلگت بلتستان ہمیشہ سے کشمیر کا حصہ نہیں تھا بلکہ 1841 میں اسے پہلے سکھوں نے بزور طاقت کشمیر میں شامل کیا بعد میں سکھوں کی شکست کے بعد اسے ڈوگرہ راج کا حصہ بنا دیا گیا۔
ہندوستان میں برطانوی دور حکومت میں سویت یونین نے سنٹرل ایشیاء کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد اس علاقہ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تو 1935ء میں مہاراجہ کشمیر نے یہ علاقہ حکومت برطانیہ کو لیز پردے دیا۔ تاہم 1947 میں جانے سے چند ماہ قبل انگریزوں نے علاقہ مقامی لوگوں کو سپرد کرنے کے بجائے واپس ڈوگرہ راجہ کو دے دیا تھا جس نے اپنا گورنر گنسارا سنگھ کو مقرر کر دیا تاہم یہاں کی مقامی آبادی اور کشمیر کی فوج میں شامل مسلمان افسران اور سپاہیوں نے گنسارا سنگھ کی حکمرانی کو قبول نہیں کیا اور مسلح جدوجہد کے نتیجے میں اسے آزاد کروا لیا۔
کرنل حسن کی سربراہی میں مسلمان افسران نے گنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو خط لکھ کر پاکستان کا حصہ بننے کی خواہش کی۔ ۔ نومبر 1947ء میں ہی سولہ دن آزاد رہنے کے بعد حکومت گلگت و بلتستان نے الحاق پاکستان کا اعلان کیا۔
شیر باز باچہ کے مطابق گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں تھا اس لیے اس کا پاکستان کے ساتھ فوری الحاق ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان نے انڈیا کے دباؤ پر اسے متنازعہ علاقہ تسلیم کر لیا جو کہ ایک غلطی تھی۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36511/2020/tunnel_on_the_way_from_gilgit_to_hunza.jpg)
اس کے بعد پاکستان نے گلگت بلتستان کو نو آبادیاتی ایجنسی کا درجہ دے کر یہاں پولیٹکل ایجنٹ تعینات کر دیے یہ سلسلہ ستر کی دہائی تک چلتا رہا حتیٰ کہ سابق وزیراعظم زولفقار علی بھٹو نے علاقے کو مین سٹریم میں لانے کے اقدامات کا آغاز کر دیا۔ بھٹو نے ایجنسی نظام ختم کرکے ڈپٹی کمشنر اور دیگر حکام تعینات کر دیے۔ کچھ علاقوں میں نوابی نظام تھا جسے ختم کر کے گلگت بلتستان کے اضلاع میں تبدیل کر دیا۔
اس کے بعد 2009ء پیپلز پارٹی کے ہی دور حکومت میں اس علاقے کو صوبے جیسی آزاد حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
2014ء میں پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی تحریک کی حمایت اور مخالفت میں بیانات اور آراء کا سلسلہ جاری ہوا۔
مقامی افراد کی رائے
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے گلگت بلتستان اسمبلی کے سابق رکن نواز خان ناجی نے بتایا کہ گلگت بلتستان کی مقامی افراد کی واضح اکثریت اول دن سے ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی ہے اور مکمل آئینی اختیارات کی خواہاں ہے۔
گو کہ بلورستان نینشل فرنٹ کے سربراہ نواز ناجی خود اس موقف کے بجائے اس بات کے حامی ہیں کہ گلگت بلتستان کو کشمیر میں استصواب رائے تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی طرح اپنا آئین رکھنے کی اجازت دی جائے تاکہ انڈیا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ مقامی اسمبلی کے 37 میں سے 33 ارکان پاکستان کے ساتھ فوری الحاق کی قراردادوں کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں۔
سابق رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 73 سالوں سے ریاست کی پالیسی ہے کہ ستاسی ہزار مربع میل کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔ ’یہ ریاست کی پالیسی ہے۔ ہم نے بھی یہی ذہن بنا رکھا ہے۔ میں اسمبلی کا ممبر تھا چار مرتبہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی قراردادیں آئی تھی میں نے مخالفت کی تھی باقی لوگوں نے حمایت کی تھی میں نے مخالفت اس لیے کی تھی ہمیں پاکستان کے زیرانتظام ہی ہیں چاہے صوبہ بنے یا نہ بنے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/September/36511/2020/000_hkg2004071349563.jpg)