’فرانس نے کئی مرتبہ اس ناقابل قبول صورتحال کی مذمت کی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
فرانس نے کہا ہے کہ وہ ایغور مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے حوالے سے چین پر دباؤ ڈالتا رہے گا اور زور دیا کہ چینی صوبے سنکیانگ میں قائم حراستی مراکز کو بند کیا جائے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ بات فرانس کی وزارت خارجہ نے کہی ہے۔ چین کو مسلمان اقلیت پر کیے جانے والے مبینہ ظلم و ستم کی وجہ تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فرانس کی وزارت خارجہ کی ترجمان اینجیز وان در مہل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم نے چین سے سنکیانگ میں حراستی مراکز بند کرنے اور وہاں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مائیکل بیچیلیت کے زیر نگرانی بین الاقوامی آزاد مبصرین کا مشن بھیجنے کا کہا ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ فرانس نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس بارے میں کئی مرتبہ اس ’ناقابل قبول‘ صورتحال کی مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’فرانس چینی حکام کے ساتھ دو طرفہ روابط اور اقوام متحدہ کے تحت اس معاملے کے حوالے سرگرم رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فرانس رواں برس کے آخر میں یورپ اور چین کے درمیان ہونے والے انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں بھی اس مطالبے کی حمایت کرے گا۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے اس ہفتے کے آغاز میں اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران اس معاملے پر پیرس کے موقف کو دہرایا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’بنیادی حقوق کوئی مغربی آئیڈیا نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسے مداخلت کہا جائے۔ یہ اقوام متحدہ کی تنظیم کے اصول ہیں اور رکن ممالک نے آزادانہ طور پر ان پر دستخط کرنے اور ان کا احترام کرنے کی حامی بھری ہے۔‘
اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے اگست 2018 میں کہا تھا کہ 10 لاکھ تک اویغور اور دیگر مسلمان گروپوں کو مغربی سینکیانگ میں قید کیا گیا ہے اور انہیں وہاں ’دوبارہ تعلیم‘ دی جا رہی ہے۔
یہ دعوے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے کیے گئے تھے جس کی چین نے تردید کی تھی۔ بیجنگ نے کہا تھا کہ وہ ’ نسلی علیحدگی پسندی اور پر تشدد دہشت گردی کے جرائم‘ کے حوالے سے اقدامات کر رہا ہے۔
چینی حکومت اور سنکیانگ میں رہنے والی اویغور آبادی کے درمیان تنازعے کی ایک ایک طویل تاریخ ہے۔
اکتوبر 2018 میں سینکیانگ میں حکام نے کہا تھا کہ ’ووکیشنل ایجوکیشن‘ بنائے گئے ہیں اور ان کی وجہ سے دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد مل رہی ہے۔
تاہم آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ نے رواں ہفتے کہا تھا کہ سینکیانگ میں 380 مشتبہ حراستی مراکز موجود ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ اویغور لوگوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں ڈی این اے سیمپل دینے کا بھی کہا گیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان مراکز میں لوگوں کو چینی زبان سکھائی جاتی ہے اور اپنے مذہب پر تنقید کرنے کا کہا جاتا ہے۔